ایف آئی اے نے پی آئی ایف ڈی کے معاملات کی تحقیقات کا آغاز کردیا

ادارے کی وائس چانسلر پر ایک دہائی سے زائد عرصے سے عہدے پر قابض ہونے کا الزام ہے

پیر 18 مارچ 2019 19:31

ایف آئی اے نے پی آئی ایف ڈی کے معاملات کی تحقیقات کا آغاز کردیا
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 مارچ2019ء) سپریم کورٹ اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن (پی آئی ایف ڈی) کے امور میں مبینہ بے ضابطگیوں کے معاملات کو اٹھانے کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) نے بھی اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔ ایف آئی اے کے خط کے مطابق ایجنسی کی جانب سے پی آئی ایف ڈی کی منیجمنٹ کو ایک سوال نامہ بھیجا گیاہے، جس میں براہ راست وزارت تجارت کے ماتحت کام کرنے والے اس ادارے سے جلدی جواب مانگا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کیس کی پہلی سماعت مئی 2018 میں ہوئی تھی اور بعد ازاں نیب نے اس اداے کے ملازمین کی جانب سے ملک بھر میں مظاہروں کے تناظر میں پی آئی ایف ڈی کی وائس چانسلر حنا طیبہ خلیل کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ حنا طیبہ خلیل پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اس عہدے پر قابض ہیں۔پی آئی ایف ڈی بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے ایک 4 سالہ کورس کی پیش کش کرتا ہے اور اسے 2008 میں وزارت تجارت کی اسپانسر شپ میں کمپنی آرڈیننس 1984 کے تحت رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ اور نیب کے پاس درج شکایت/درخواست میں کہا گیا کہ ادارے میں منظور نظر اور نااہل لوگوں کو بھرتی کرلیا گیا، اس بے ضابطگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پی آئی ایف ڈی کی انتظامیہ اپنے لیکن غلط فیصلوں پر عملدرآمد چاہتی ہے۔ادھر ایف آئی اے کی جانب سے پی آئی ایف ڈی کے متعلقہ کالجوں اور ان کے کھولنے اور بند کرنے کی منظوری، فنانشل رولز، آمدنی اور اخراجات کی ماہوار بیلنس شیٹ، ڈائری اور ڈسپیچ رجسٹرز کی نقل، تنخواہوں کی تفصیلات، فرنیچر کی خریداری کے ساتھ متعلقہ کالجوں کے ریکارڈ کی خریداری، فکچر، مشینری اور سامان، متعلقہ کالجوز کی بندش کے بعد ان کے اثاثوں کے استعمال کی تفصیلات سے متعلق پی سی ون کا تصدیق شدہ ریکارڈ مانگا گیا ہے۔

تحقیقاتی ادارے کی جانب سے متعلقہ کالجرز کی عمارت کے مالک سے معاہدے سے قبل کالجز کے لیے لی گئی تمام عمارتوں کے مارکیٹ رینٹ (کرائی) سے متعلق سروے رپورٹ کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے، جس میں مالکان سے ساتھ ہونے والے معاہدے اور ہر عمارت کے مالک کو ادا کی گئی رقم کی تفصیلات بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ خزانچی اور فنانس منیجر کی تقرری، ریٹائرڈ ملازمین کی بھرتیوں کی تفصیلات، لیکچرز کے لیے رکھے گئے غیر ملکیوں کو دی گئی مراعات، وزٹنگ فیکلٹی کی فہرست، ان طلبہ کی فہرست جنہیں مطلوبہ سرٹیفکیٹ کے بغیر داخلہ دیا گیا، ہاسٹل کی عمارت کے لیے نجی گھروں کی مکمل تفصیلات، مقامی خریداری کی ماہوار تفصیلات و دیگر کا مکمل ریکارڈ مانگا گیا ہے۔

پی آئی ایف ڈی انتظامیہ پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کریت ہوئے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو بھرتی کیا۔خیال رہے کہ نیب کو موصول ہونے والی شکایت میں کہا گیا تھا کہ پی آئی ایف ڈی سے الحاق شدہ مختلف کالجز بند ہوگئے اور پبلک پراکیورمینٹ ریگولیٹری اتھارٹی رولز کو پورا کیے گئے بغیر ان کالجز کے نام پر لاکھوں روپے کی بھرتیاں کی گئیں۔

اس کے علاوہ پی آئی ایف ڈی انتظامیہ پر ایک نجی سیکیورٹی کمپنی کو رکھنے اور اپنے ہیڈکوارٹرز میں ایک کمرہ تعمیر کرنے میں بے ضابطگیوں اور کرپشن کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔درخواست گزار کے مطابق نجی سیکیورٹی کمپنی وائس چانسلر حنا طیبہ خلیل کے کسی رشتے دار کی تھی اور اس کی خدمات حاصل کرنے کے لیے دوسری اہل کمپنیوں کو نظر انداز کیا گیا۔