قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی وائس چانسلرز کمیٹی کے نئے چیئرمین منتخب

پیر 22 اپریل 2019 20:30

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اپریل2019ء) قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی کو وائس چانسلرز کمیٹی کا نیا چیئرمین منتخب کر لیا گیا، اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سربراہان نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت آئندہ بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کی گرانٹ پر کوئی کٹ نہیں لگائے گی۔ پیر کو وائس چانسلرز کمیٹی کا 23 واں اجلاس ڈاکٹر معصوم یوسفزئی کی زیر صدارت مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں یونیورسٹیوں کے 137 وائس چانسلرز اور ریکٹرز نے شرکت کی۔ اجلاس میں چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر طارق بنوری اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد اصغر بھی موجود تھے۔ اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے وائس چانسلرز کمیٹی کے نو منتخب چیئرمین ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ اجلاس میں چیئرمین ایچ ای سی نے اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کی مالی صورتحال اور ریفارمز کے بارے میں اجلا کو بریفنگ دی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار گیلانی نے اجلاس کو چار سالہ انٹیگریٹڈ انڈرگریجوایٹ پروگرام پر بریفنگ دی۔ آصف شاہد خان نے جدید دور میں اعلیٰ تعلیم کے تقاضوں پر بریفنگ دی۔ ایچ ای سی کی پالیسی اور ریگولیشنز پر پروفیسر ڈاکٹر دائود منیر نے اجلاس کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں کمیٹی کے نئے چیئرمین کا انتخاب کیا گیا جس میں قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلرز ڈاکٹر محمد علی منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر محمد علی نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے کو پہلے سے ہی مالی مشکلات کا سامنا ہے اور انہوں نے ان مالی مشکلات کے بارے میں حکومت کو آگاہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کسی بھی صورت میں طلباء کی فیسوں میں 10 فیصد سے زائد اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیز کے بجٹ کو پورا کرنے کے لئے دیگر ذرائع کو استعمال کیا جائے گا جس میں انڈسٹریز کے ساتھ روابط کا استعمال بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی ہماری ایسی یونیورسٹیز ہیں جو انڈسٹریز کے ساتھ روابط سے ایک اچھی رقم حاصل کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میں وہ انڈسٹریز کو ان کی مشکلات کے حل کے بارے میں تحقیق اور تربیت فراہم کرتی ہیں جبکہ بہت سی ایسی انڈسٹریز ہیں جو اپنی طرف سے بھی اعلیٰ تعلیم کو مدد فراہم کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہی یونیورسٹیز کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر یونیورسٹیز میں بھی انڈسٹریز کے ساتھ روابط کو فروغ دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی تکنیکی تربیت کے حوالے سے ترجیحات ہیں اور اس سلسلے میں 12 سال کی تعلیم کے بعد دو اور چار سال کے ڈپلومہ کورسز کرائے جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ہمارے پی ایچ ڈیز بے روزگار ہیں لیکن ایسا صرف چند ڈسپلنز میں ہے، ہمارے پی ایچ ڈیز زیادہ تر بڑے شہروں میں روزگار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، دور دراز یونیورسٹیز میں اب بھی ان کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ ہم پی ایچ ڈیز کو اپنا روزگار خود پیدا کرنے کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے روزگار کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی روزگار دے سکیں۔ اس موقع پر اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر اور کمیٹی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر معصوم یوسفزئی نے کہا کہ اجلاس میں یونیورسٹیز کے بجٹ کو پورا کرنے کے لئے 9 مختلف طریقوں پر غور کیا گیا۔

ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ اگر یونیورسٹیز کے بجٹ پر کٹ لگتا ہے تب بھی کسی بھی صورت میں اکیڈمی پروگرام اور ریسرچ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عطاء الرحمن ایچ ای سی کے بانی چیئرمین تھے، ان کی تجاویز اور تحفظات ہمارے قابل احترام ہیں، ان کے ساتھ ملاقات میں تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا۔ بعد ازاں ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو پہلے سے ہی مالی مشکلات کا سامنا ہے، تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگیوں میں مشکلات ہیں۔

امید ہے کہ حکومت مزید کٹ نہیں لگائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کٹ نہ لگنے کے باوجود مالی مشکلات کا سامنا رہے گا تاہم ان کا بوجھ طلباء پر نہیں پڑے گا اور نہ ہی ریسرچ متاثر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ان کو صوبائی ایچ ای سی سے کوئی مسئلہ نہیں۔ یونیورسٹیز کے سربراہان کا تقرر صوبے کرتے ہیں جبکہ ایچ ای سی پالیسی اور معیار کا تقرر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر کام کرنا ہے اور وہ اسی پالیسی کے تحت کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر طارق بنوری نے کہا کہ ایچ ای سی میں تمام صوبائی حکومتوں کی نمائندگی ہوتی ہے اور اگر دیکھا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت اسے 18 ویں ترمیم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی بنایا گیا تھا۔