بھارت، مختلف انتخابات میں 24 بار شکست کھانے والے امیدوار نے پھر الیکشن لڑا ، بدعنوانی کے خاتمے کا یہی واحد راستہ ہے، وجے پرکاش کونڈیکر

منگل 23 اپریل 2019 10:40

پونے۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اپریل2019ء) بھارت میں لوک سبھا کے لے منگل کو انتخابات کے تیسرے مرحلے میں مغربی ریاست مہاراشٹر سے میونسپل سطح سے لے کر پارلیمارنی سطح کے انتخابات میں 24 بار شکست کھانے والے آزاد امیدوار نے ایک بار پھر الیکشن لڑا ہے۔73 سالہ وجے پرکاش کونڈیکرکا تعلق پونے کے شیوا جی نگر سے ہے۔وہ دو ماہ سے گھر گھر جا کر لوگوں سے ووٹ مانگ رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں صرف پارٹی پر مبنی سیاست ہی واحد راستہ نہیں ہے۔ وہ ملک کو خود جیسے آزاد امیدوار دینا چاہتے ہیں اور ان کے خیال میں تمام طرح کی بدعنوانی کے خاتمے کا یہی واحد راستہ ہے۔ وجے پرکاش کونڈیکرکا کہنا ہے کہ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں اس کے لحاظ سے ہو سکتا ہے کہ یہ ان کا آخری الیکشن ہو لیکن پھر بھی انہیں امید ہے کہ ایک دن وہ وزیر اعظم بنیں گے اور اس صورت میں وہ ہر بھارتی شہری کو 17 ہزار روپے دیں گے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ اگر حکومت دوسرے اخراجات کم کر دیتی ہے تو ایسا کرنا نہایت آسان ہوگا۔وہ 1980ء کی دہائی کے اواخر تک ریاست مہاراشٹر کے بجلی بورڈ میں کام کرتے تھے۔ ان کا انتخابی نشان جوتا ہے ، بہت سے لوگ انھیں نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن بہت سے لوگ ان کے ساتھ سیلفی کی فرمائش کرتے ہیں۔بھارت میں 1952 کے پہلے انتخابات سے لے کر رواں انتخابات سے قبل تک 44962 آزاد امیدواروں نے قسمت آزمائی کی ہے جس میں سے صرف 222 ہی کامیاب ہو سکے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر آزاد امیدواروں کو سیاسی پارٹیاں ہی مخالفین کے ووٹ تقسیم کرنے کے لیئے میدان میں اتارتی ہیں۔

آزاد امیدوار کم ہی کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ پارٹیوں کے پاس زیادہ پیسے اور وسائل ہوتے ہیں۔ وجے پرکاش کونڈیکر لوگوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ بیلٹ پیپر کے آخر میں کوئی نہیں والے آپشن سے اوپر ان کا نام ووٹرز کو با آسانی مل جائے گاکیونکہ انتخابی ضوابط کے مطابق قومی پارٹی کے امیدوار پہلے آتے ہیں اور پھر ریاستی سطح کی پارٹیوں کے امیدوار اور آخر میں آزاد امیدوار ہوتے ہیں۔

مسٹر کونڈیکر کو معلوم ہے کہ ان کی جیت ناممکن ہے۔ گذشتہ برسوں میں انتخابی مہم کے اخراجات کے لیے انھوں نے اپنی آبائی زمین اور مکان فروخت کر دیا ہے۔ انھوں نے کاغذات نامزدگی کے فارم میں جو آمدن بھری ہے اس کے مطابق ان کی آمدن صرف 1921 روپے ماہانہ پنشن ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ مقابلہ سیاسی پارٹیوں کی لوہے کی تلوار اور میری کاغذ کی تلوار کے درمیان ہے لیکن میں پھر بھی پر امید ہوں۔