محکمہ کسٹمز کے ایک بیوروکریٹ کے ساتھ نیب میں کیا گزری؟

عاشر عظیم نیب کی تحقیقات کرنے کی اندرونی کہانی سامنے لے آئے، پاکستانی تاریخ کے 50اہم ترین کیسز میں سے ایک کیس کو بنانے والوں کو بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کیس کیوں بنا رہے ہیں

Usman Khadim Kamboh عثمان خادم کمبوہ ہفتہ 25 مئی 2019 23:02

محکمہ کسٹمز کے ایک بیوروکریٹ کے ساتھ نیب میں کیا گزری؟
راولپنڈی(اردوپوائنٹ اخبارتازہترین۔25مئی2019ء) پاکستان کے معروف اداکار اور بیوروکریٹ عاشر عظیم نیب کی اندرونی کہانی سامنے لے آئے۔ عاشر عظیم نے اپنے ایک وڈیو بیان میں انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر 2008میں ایک سسٹم بنایا تھا جس سے محکمہ کسٹم کا سارا ریکارڈ کمپیوٹراز کر دیا گیا تھا لیکن اس سے بہت سے حکام کے پیٹ میں درد پیدا ہو گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں وہ سسٹم بنانے کے بعد انکوائری کے لیے نیب کی طرف سے بلایا گیا اور جب وہ تحقیقات کے لیے پیش ہوئے تو انہیں کہا گیا کہ آپ کے خلاف شکایت آئی ہے کہ آپ کے سسٹم کے ذریعے غیرقانونی کنٹینرز کو کلئیر کیا جاتا ہے اور 289 کنٹینرز کلئیر کیے جا چکے ہیں۔ عاشرعظیم نے جب ان سے سوال کیا کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں تو نیب کے تحقیقات کرنے والے لوگوں نے انہیں کہا کہ انہیں بتایا جائے گا کسٹمز کا کمپیوٹر سسٹم کیسے کام کرتا ہے اور 289 کنٹینرز کا جواب دیا جائے۔

(جاری ہے)

اس کے جواب میں عاشرعظیم نے انہیں کہا کہ آپ کسی ایک کنٹینر کا نمبر بتا دیں ہم اپنے سسٹم سے اس کی تمام معلومات نکال دیتے ہیں جس پر نیب افسران کوئی نمبر نہیں بتا سکے اور کہا کہ ہمارے پاس کسی کنٹینر کا نمبر نہی ہے۔
اس کے بعد نیب والوں نے انہیں کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ غلط شکایات تھی اس لیے ہم اس معاملے کو ختم کر رہے ہیں جس پر عاشر عظیم نے ان سے پوچھا کہ جس شخص نے یہ شکایت کی ہے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی؟ تو نیب کے افسران نے کہا کہ نہیں بس یہ معاملہ ختم ہو گیا لیکن 3 سال بعد کسٹم افسر عاشرعظیم کو دوبارہ نوٹس بھیجا گیا اور انہی کنٹینرز کے حوالے سے دوبارہ تحقیقات ہونے لگیں جبکہ انہیں اسی بنیاد پر بغیر جواز کے معطل کر کے انکا نام بھی ای سی ایل پہ ڈال دیا گیا تھا جب کہ کنٹینر نمبر ابھی بھی کوئی بتایا نہیں گیا تھا۔

3 سال بعد بلانے پر انہیں نیب کی جانب سے بہت لمبا سوالنامہ دیا گیا اور کہا گیا کہ بتایا جائے کہ انہیں گزشتہ 5سالوں میں کتنا بجلی کا بل آیا، بچوں کی فیس اور باقی اخراجات کتنے کیے گئے اور ملک میں جتنے بھی بینک اکاؤنٹس تھے ان سب میں موجود رقم کے حوالے سے بھی استفسار کیا گیا، جب عاشر عظیم نے تمام معلومات فرام کر دیں تو انہیں کہا گیا کہ ٹھیک ہے آپ کلئیر ہیں لیکن پھر 2015میں سپریم کورٹ میں پاکستانی تاریخ کے 50سب سے بڑے فراڈ کے کیسز پیش کیے گئے تو اس میں یہ کیس دوبارہ پیش کر دیا گیا اور دوبارہ عاشر عظیم کو بلایا گیا اور ان سے سوال پوچھا گیا کہ جس کمپنی کو سافٹ وئیر بنانے کے لیے 11 ملین ڈالر دیے گئے اسے آپ نے کس بنیاد پر چنا تھا تو عاشرعظیم نے کہا کہ اس کیمپنی کے ٹینکیکل معائنے کے لیے 7 لوگوں کی کمیٹی بنی تھی باقی 6 لوگوں کو بھی بلایا جائے اور ان سے بھی پوچھا جائے لیکن نیب نے کہا کہ آپ جواب دیں تو عاشر عظیم نے انہیں بتایا کہ انہوں نے کمپنی کی ٹیکنیکل اویلوئیشن کی تھی اور انہیں نہیں بتایا گیا تھا کہ کمپنی نے کتنے روپے میں سافٹ وئیر بنانے کی آفر کی ہے تاہم بعد میں بھی یہی پتا چلا تھا کہ اسی کمپنی نے سب سے سستی آفر کی تھی اور 2لاکھ ڈالر میں سافٹ وئیر بنانے کا کہا تھا لیکن 2010میں اسی کمپنی کو 11میلن ڈالر ادا کیے گئے اور اس وقت عاشرعظیم معطل تھے اور وہ اس ادائیگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔

عاشرعظیم کے مطابق جب انہوں نے نیب افسر سے پوچھا کہ آپ باقیوں کو بلا کر ان سے تفتیش کریں تو نیب افسر نے کہا کہ انہیں عاشرعظیم کے خلاف ریفرنس بنانے کی ہدایت کی گئی ہے، عاشر عظیم نے پوچھا کس جواز پر ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نہیں جانتے بس ہم نے ریفرنس بنانا ہے۔