مقبوضہ کشمیر میں مسلسل 77ویں روز بھی فوجی محاصرہ بدستور جاری رہا

پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی،مریضوں کو ہسپتال پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا، دکانیں اور کاروباری مراکز بند مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد صورتحال دھماکہ خیز ،لاواکسی بھی وقت پھٹنے کا خطرہ ہے، غیر ملکی میڈیا کشمیر میں مسلسل لاک ڈائون کے خلاف نئی دہلی میں جنتر منترکے مقام پر سول سوسائٹی کے ارکان نے احتجاجی مظاہرہ

اتوار 20 اکتوبر 2019 20:35

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اکتوبر2019ء) مقبوضہ کشمیرمیں وادی کشمیر اور جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں میںاتوار کو مسلسل 77ویں روز بھی فوجی محاصرہ اورانٹرنیٹ کی معطلی بدستور جاری رہی ۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگوں باالخصوص مریضوں کو ہسپتال پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

مقبوضہ علاقے میںبھارت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف خاموش احتجاج کے طورپر دکانیں اور کاروباری مراکز بندہیں۔سرینگر کی تاریخی جامع مسجد 5اگست سے مسلسل بند ہے اور مسجدکے ارد گرد اور ملحقہ بازاروںمیںبھارتی فورسز کی بھاری تعداد تعینات ہے۔ قابض انتظامیہ کی طرف سے تعلیمی ادارے کھولنے کے اعلان کے باوجود طلباء کلاس روموں میں نہیں جاتے۔

(جاری ہے)

ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے اپنے ایک مضمون میں کہاہے کہ5اگست کو بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد وہاں کی صورتحال دھماکہ خیز ہے اور لاواکسی بھی وقت پھٹنے کا خطرہ ہے۔ مضمون میں کہاگیا کہ مقبوضہ علاقے میں عام شہریوں کے لیے زندگی نارمل نہیں ہے۔ اخبار نے لکھا کہ کشمیری صحافیوں میں بے بسی، خوف اور ناامیدی پائی جاتی ہے۔

دریںا ثناء کشمیر میں مسلسل لاک ڈائون کے خلاف نئی دہلی میں جنتر منترکے مقام پر سول سوسائٹی کے ارکان نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔مظاہرین نے بھارتی حکومت کے اقدام کے خلاف بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ کشمیریوں کی رضامندی کے بغیر جموںوکشمیر کے مستقبل کے بارے میں کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ انہوں نے علاقے میں 5اگست سے پہلے کی پوزیشن بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ایک تقریب کے موقع پر ’’سب سے بڑی جمہوریت میں جبری مشقت‘‘کے زیر عنوان ایک دستاویزی فلم جاری کی گئی ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر شفقت رعنا نے سامعین کو بتایا کہ بھارتی فوجیوں نے 90کی دہائی میں کس طرح کشمیر میں جبری مشقت کروائی ہے۔انہوں نے سامعین کو اس وقت کے حالات اور جبری مشقت کی وجہ سے متاثرین کی نفسیات اور زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کے بارے میںبھی بتایا۔

انہوں نے کہا جبری مشقت ضلع پلوامہ سمیت بہت سے علاقوں میںاب بھی لی جاتی ہے جہاںبھارتی فوج ڈرائیوروں سے ان کی گاڑیاں چھین کر ان کو جعلی مقابلوں اور رات کے دوران چھاپوں میں استعمال کرتی ہے۔ برطانیہ کے شہر سائوتھمپٹن میں کشمیری کمیونٹی سے وابستہ افراد، ان کے دوستوں اورہمدردوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگرکرنے کے لیے کشمیرآزادی مارچ کا اہتمام کیا۔ مارچ میں ہرعمر کے لوگ شریک تھے اورانہوںنے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرزاٹھا رکھے تھے جن پر ’’اقوام متحدہ سے کشمیر کے حوالے سے کردار ادا کرنے‘‘ اور ’’بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں تشددبند کرنے‘‘کے مطالبات درج تھے ۔