سینیٹر مشاہد اللہ خان کی زیرصدارت ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کا اجلاس

پی آئی اے ملازمین کی جعلی ڈگریوں کے حوالے سے جائزہ کمیٹی کی پروگریس رپورٹ اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا

منگل 3 دسمبر 2019 19:24

سینیٹر مشاہد اللہ خان کی زیرصدارت ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 دسمبر2019ء) ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پی آئی اے ملازمین کی جعلی ڈگریوں کے حوالے سے جائزہ کمیٹی کی پروگریس رپورٹ اور ملوث افسران کے خلاف کارروائی، سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کے 13نومبر 2018کو اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ منصوبے میں کی گئی کرپشن، ثناء وحید سینئر آرٹی او، فرزانہ یاسمین اور نوشابہ طلعت کو ہراساں کئے جانے کے معاملے کے علاوہ 17 اکتوبر 2019 کو نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اے ایس ایف ملازم کے غلط رویہ کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ پی آئی اے ملازمین کی جعلی ڈگریوں کے معاملے کے حوالے سے ادارے کو یکساں پالیسی اختیار کرنی چاہئے اور جعلی ڈگری کی بنیاد پر اگرشروع میں نہیں نکالا گیا تو 25 سال بعد ملازمین کو نکالنا ناانصافی ہے۔ جعلی ڈگری والوں کے خلاف 8 ایکشن ہو سکتے ہیں، نوکری سے نکالنا آخری آپشن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین کا سالانہ اضافہ (انکریمنٹ)، پچھلے گریڈ میں بھیجنا و دیگر آپشن بھی ہیں جو اختیار کئے جا سکتے ہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2006 میں پی آئی اے بورڈ نے ایمپلائی لیڈر شپ ٹیم (ای ایل ٹی) تشکیل دی تھی جنہوں نے ملازمین کی جعلی ڈگری چیک کرنی تھی تب سے جعلی ڈگریوں والوں کے خلاف کام کیا جا رہا ہے۔ تقرری کے وقت ایک فارم دیا جاتا ہے جس کو ملازم خود اپنے ہاتھ سے بھرتا ہے کہ جعلی دستاویزات فراہم کرنے پر نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ابتک 647 جعلی ڈگری کے کیسز سامنے آئے ہیں اور 206 لوگوں نے عدالت میں کیس کئے ہیں اور صرف تین سے چار لوگوں کو ریلیف ملا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ ادارے کو ملازمین کے خلاف نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے یکساں ایکشن لینا چاہئے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ سینیٹرز نعمان وزیر خٹک اور فیصل جاوید نے کہا کہ ادارے کو عدالت کے فیصلے کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ میرے سوال کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے۔

گزشتہ اجلاس میں کمیٹی نے واضع ہدایت کی تھی کہ جے آئی ٹی بنا کر رپورٹ فراہم کی جائے مگر ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ پارلیمان کی کمیٹیوں کو پوری تیاری کے ساتھ افسران بریف کیا کریں جس سے مسائل جلدی حل ہو جاتے ہیں۔ سینیٹر مصطفی کھوکھر نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں وزیر نے کہا تھا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر کابینہ کی ایک ذیلی کمیٹی بنائی ہے جس نے رپورٹ تیار کرنی تھی ۔

سیکرٹری ایوی ایشن نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں وزیر سے اس حوالے سے بات کر کے کمیٹی کو آگاہ کر دیا جائے گا۔ ثناء وحید کو ہراساں کیا جانے کے معاملے کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ثناء وحید اور کامران انجم، اسپیشل اسسٹنٹ سی ای او کمیٹی کو تفصیلات فراہم کریں گے مگر اُن کی عدم شرکت کی وجہ سے آئندہ اجلاس تک معاملہ موخر کرتے ہیں کمیٹی نے انہیں نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا اگر آئندہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تو ایکشن لیا جائے گا۔

سمبارا ہوٹل لاڑکانہ کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1974 میں سندھ حکومت نے لاڑکانہ میں5 ایکڑ زمین وزیراعظم کی ہدایت پر پی آئی اے کو تحفے میں دی۔ پی آئی اے نے سمبارا ہوٹل تعمیر کیا جس کے دو بلاک میں 48 کمرے ہیں پی آئی اے نے بورڈ کی منظوری کے بعد 1990میں یہ ہوٹل سندھ حکومت کو تحفے میں دیا۔ پی آئی اے نے اس کے دو بڑے ہال اپنے قبضے میں رکھے اور 2000ء میں پی آئی اے نے ہوٹل واپسی کیلئے چیف سیکرٹری سندھ سے معاملہ اٹھایا۔

کمیٹی نے زمین کے کاغذات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے معاملہ آئند ہ اجلاس تک موخر کر دیا۔ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ مختلف ائیر پورٹس کو بند کیا جا رہا ہے اور جن کو بند کیا گیا ہے اس سے کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ آئندہ اجلاس میں اس کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔ سینیٹر سجاد حسین طوری نے کہا کہ پارچنار میں ائیر پورٹ ہے جو بند پڑا ہے فنگشنل کرنے پر مختلف کمپنیاںسروس شروع کر سکتی ہیں ۔

قائمہ کمیٹی کو پی آئی اے کی مختلف ممالک میں پراپرٹیز کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی آئی اے کی نیویارک میں پراپرٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہے جہاں ہوٹل کے 400 کمرے ہیں اور بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پراپرٹیز کے حوالے سے کیبنٹ نے فیصلہ کرنا ہے کیبنٹ میٹنگ کے آج کے ایجنڈا میں شامل ہے جو فیصلہ ہو گا کمیٹی کو آگاہ کر دیا جا ئے گا۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی آئی اے لمیٹڈ کمپنی ہے اس کا بورڈ فیصلہ کر سکتا ہے حکومت فیصلہ نہیں کر سکتی۔ پی آئی اے خواتین ملازمین کے بڑھتے ہوئے ہراساں کئے جانے واقعات پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ فرزانہ اور نوشابہ نے بھی پی آئی اے افسران کی طرف سے حراساں کئے جانے کی شکایات کی ہیں اور کامران انجم کے حوالے سے دو ہراساں کرنے کی شکایات آئی ہیں ادارے کو اس کے خلاف ایکشن لینا چاہئے۔

سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ ایچ آر کی ذمہ داری ہے کہ ملازمین کو بہترماحول فراہم کیا جائے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہراساں کے معاملات وفاقی محتسب کے پاس بھی ہیں اور خواتین تحفظ کمیٹی کے پاس بھی ہیں۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی آئی اے رولز میں جب ایکشن تجویز ہے تو ادارہ عمل کیوں نہیں کرتا بروقت ایکشن لینے سے ایسے واقعات کم ہو سکتے ہیں۔

کمیٹی کو نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اے ایس ایف ملازم کے غلط رویہ کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ خراب موسم کی وجہ سے دیگر شہروں کی دو فلائٹس کو اسلام آباد ایئرپورٹس پر لایا گیا تھا رش بڑھ گیا تھا اور مسافروں نے احتجاج شروع کر دیا تھا ذمہ داری پی آئی اے اور سی اے اے کی بنتی تھی ۔ مسافروں نے اے ایس ایف ملازم کو دھکے دیئے تو اُس نے بدتمیزی کی ۔

اُس لڑکے کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کیا جائے گا اور دیگر ملوث لوگوں کے خلاف انکوائری اور ایکشن لیا جا رہا ہے ۔ اجلاس میں سینیٹر فیصل جاوید، حاصل خان بزنجو، نعمان وزیر خٹک، محمد اسد علی خان جونیجو، مصطفی نواز کھوکھر، سجاد حسین طوری اور بہرہ مند خان تنگی کے علاوہ سیکرٹری ایوی ایشن حسن ناصر جامی، سی ای او پی آئی اے ، جی ایم پی آئی اے اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔