دعا منگی کے اغوا میں عسکریت پسند گروہ ہونے کا شبہ

اغواکاروں نے دونوں لڑکیوں کو بظاہر ان کے حلیے کی وجہ سے اغوا کیا کیونکہ وہ انہیں فیشن ایبل مانتے تھے جو اسلامی روایات یا کنونشز کی پیروی نہیں کرتے۔ پولیس افسر

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان پیر 9 دسمبر 2019 14:53

دعا منگی کے اغوا میں عسکریت پسند گروہ ہونے کا شبہ
کراچی (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔09دسمبر 2019ء) دعا منگی کیس میں نیا موڑ آ گیا ہے۔پولیس کو اس اغوا کے واقعے میں کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کچھ عناصر کے ملوث ہونے کا شبہ ہوا ہے۔دعا منگی کے اغوا کے وقت دوست حارث پر چلائی گئی گولی کے خول کو فرانزک معائنے کے لیے بھیجا گیا تھا جو نیپا چورنگی پر ملی اُن گولیوں سے مماثلت رکھتے ہیں جو تین دسمبر کو پولیس اور مسلح موٹر سائیکل سواروں کے درمیان مقابلے کے دوران چلائی گئی تھی۔

دعا کے اغوا میں ملوث گروہ پر پہلے بھی شہر میں واردات کا شبہ ہے، مئی میں ڈیفنس ہی سے اغوا ہونے والی بسمہ کے کیس میں بھی یہی گروہ ملوث تھا۔ بسمہ اور دعا کے اغوا کے کیسز میں مماثلت بتائی جا رہی ہے، بسمہ کو بھی بھاری تاوان کی ادائیگی کے بعد چھوڑا گیا تھا، سات مہینے گزرنے کے بعد بھی بسمہ کیس کے ملزمان گرفتار نہیں ہوئے، ایک پولیس افسر نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ جس طرح اغوا کاروں نے پلان کیا،دونوں لڑکیوں کو اغوا کیا اور پھر ان کے ساتھ سلوک رکھا ہو سکتا ہے کہ ان کا عسکریت پسند گروپ سے تعلق ہو۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اغواکاروں نے دونوں لڑکیوں کو بظاہر ان کے حلیے کی وجہ سے اغوا کیا کیونکہ وہ انہیں فیشن ایبل مناتے تھے جو اسلامی روایات یا کنونشز کی پیروی نہیں کرتے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ اغوا کار جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے واقف تھے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ اشارہ دیا کہ اغوا کاروں کا تعلق عسکریت پسند گروپس کے اس گروہ سے ہو سکتا ہے جو ماڈرن ٹیکنالوجی کا ماہر ہے۔

یاد رہے کہ 30نومبر کو رات گئے ڈیفنس سے اغوا ہونے والی دعا منگی ازخود گھر پہنچ گئی تھی۔ دعا منگی کی رہائی ڈیڑھ کروڑ تاوان کی ادائیگی کے بعد ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔ تاہمدعا منگی کے اہلِ خانہ اس حوالے سے کوئی بھی تفصیلات فراہم کرنے سے گریزاں تھے۔ ذرائع کے مطابق دعا منگی کو بازیاب کرانے میں سندھ پولیس ناکام رہی اوراس کی رہائی مبینہ طورپرتاوان کے عوض عمل میں آئی۔دعا منگی کے ماموں وسیم منگی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا الحمدللہ دعا گھرپر خیریت سے ہے۔