مہنگائی کے ہاتھوں ستائی عوام ایک اور بڑے صدمے کے لیے تیار ہو جائیں

اکتوبر 2019ء کے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں فی یونٹ 1.73 روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے

Muhammad Irfan محمد عرفان ہفتہ 14 دسمبر 2019 16:49

مہنگائی کے ہاتھوں ستائی عوام ایک اور بڑے صدمے کے لیے تیار ہو جائیں
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 14دسمبر 2019ء) پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مہنگائی مِٹانے اور عوام کی زندگیوں کو خوشگوار بنانے کے دعوے کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ تاہم اس کی گزشتہ ڈیڑھ سال کی مُدتِ حکمرانی میں عوام پر مہنگائی کے وزنی بلڈوزر چلا دیئے گئے۔ جہاں ایک طرف اشیائے خورد و نوش کی قیمت میں اضافہ ہوا، وہاں گیس، پانی اور بجلی کے بھاری بِلوں نے بھی عوام کا بھُرکس نکال دیا ہے۔

مہنگائی سے زرد پڑے عوام کے چہروں کے لیے اب ایک اور ایسی خبر سُنا دی گئی ہے، جس سے اُن کا مزید خون نُچڑ جائے گا۔ گزشتہ ماہ کی طرح ایک بار پھر بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے باعث عوام پر مجموعی طور پر 20 ارب روپے کا ماہانہ بوجھ پڑے گا۔ حالانکہ موجودہ حکومت کے دور میں پہلے ہی 10 بار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے مگر عوام پر بالکل بھی نہ ترس کھاتے ہوئے 11 ویں بار پھر بجلی کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق سی پی پی اے نے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اکتوبر کی درخواست نیپرا کو جمع کرا دی ہے درخواست میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر میں فیول سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت 51 ارب روپے آئی، اس لیے قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ نیپرا کی جانب سے 26 دسمبر 2019ء کو سی پی پی اے کی درخواست پر سماعت کرے گا۔ اس موقع پر وہ وجوہات پیش کی جائیں گی جن کی بناء پر اضافے کی درخواست کی گئی ہے۔

ابھی جو سفارشات آئی ہیں اس میں بتایا گیا ہے کہ فرنس آئل سے بجلی پیدا کی گئی، جس کے باعث پیداواری لاگت 13 روپے فی یونٹ رہی۔ بجلی کی اس مہنگی لاگت کی وجہ سے ہی فی یونٹ قیمت میں اضافہ کرنا لازمی ہو گیا ہے۔ حالانکہ نیپرا کی جانب سے بجلی کی پیداواری کمپنیوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ فرنس آئل کے مہنگے ہونے کی وجہ سے اس سے بجلی پیدا نہ کی جائے۔ مگر پیداواری کمپنیوں نے نیپرا کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے فرنس آئل کا ہی استعمال کیا، جس کے باعث مہنگی بجلی پیدا ہوئی۔ اس طرح اکتوبر کے مہینے کی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں عوام کو فی یونٹ 1.73 روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے۔ اور مجموعی طور پر عوام پر 20 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔