پیپلزپارٹی رہنما کی خضدار یونیورسٹی کو جھالاوان میڈیکل کو ضم کرنے کی مذمت

حکومت کی پالیسی نہ صرف صوبے تعلیمی پسماندگی میں اضافہ ہو گا بلکہ خضدار کے نوجوانوں میں بھی مایوسی پھیلے گی،میر عبدالرحیم خدرانی

پیر 20 جنوری 2020 22:37

خضدار(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 جنوری2020ء) پاکستان پیپلز پارٹی خضدار کے جنرل سیکرٹری میر عبدالرحیم خدرانی نے خضدار یونیورسٹی کو جھالاوان میڈیکل کو ضم کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی اس پالیسی نہ صرف صوبے تعلیمی پسماندگی میں اضافہ ہو گا بلکہ خضدار کے نوجوانوں میں بھی مایوسی پھیلے گی ۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بننے والی مخلوط حکومت کی طرف سے 3 میڈیکل کالز اور 6 یونیورسٹیز کا اعلان یقینا کسی خوش نما خواب سے کم نہیں تھا 5 ارب کی لاگت سے جھالاوان میڈیکل کالج اور 3 ارب کی لاگت سے سکندر شہید یونیورسٹی کے قیام کا آغا ہونا یقینا کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔

وقت کے ساتھ جھالاوان میڈیکل کو متبادل جگہ شروع کرنے اور ساتھ ہی سکندر شہید یونیورسٹی کے تیز تعمیراتی کام کی وجہ سے عوام میں یہ امید جاگ چکی تھی کہ جھالاوان میڈیکل کالج خضدار اور انجنیئرنگ یونیورسٹی خضدار کے بعد ایک اور اعلی تعلیمی درسگاہ بہت جلد تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا تھا۔

(جاری ہے)

خبر چلی کہ صوبائی حکومت فنڈز کی کمی کے باعث سکندر شہید یونیورسٹی کو ختم کرکے اس کی بلڈنگ اور پراپرٹی کو جھالاوان میڈیکل کالج خضدار میں ضم کرنے ارادہ رکھتی ہے۔

حالانکہ کہ فنڈز کی کمی کا رونا رونے والی صوبائی حکومت کے بجٹ سی37 ارب وفاق پر مہربانی کرتے ہوئے واپس کرچکے ہیں اور یہ میں نہیں بلکہ صوبائی اسمبلی ایک زمہ دار رکن ثناء بلوچ صاحب ان فلور کہہ چکے ہیں۔یہ خبر خضدار کے تعلیم دوست طبقے کے لئے کسی سانحہ سے کم نہیں ہے یقینا یہ ادارے راتوں رات نہیں بنتے اگر کوئی کم رہ بھی گئی ہے تو ہر نئے آنے والی حکومت کا کام ہے کہ وہ کسی بھی پروجیکٹ میں حائل رکاوٹ دور کرکے فنڈ فراہم کرے نہ کہ پروجیکٹ کو ہی جڑ سے ختم کرے۔

ساتھ ہی خضدار کے منتخب نمائندوں کی مجرمانہ غفلت بھی حیران کن ہے منتخب نمائندوں کا یہ قومی فرض بنتا ہے کہ عظیم منصوبے کو سیاسی انارکی کی بھینٹ چڑھنے نہ دیں اور عوام سے لیے ووٹ کے تقدس کا خیال رکھ کر فوری اور جامعہ قدم اٹھا کر خضدار کے عوام کے خدشات دور کریں۔اور خضدار کے باشعور عوام، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں، طلباء تنظیموں، وکلا ٹریڈیونینز اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا فرض بنتا کہ وہ ذاتی مفادات سیاسی رنجشوں سے بالاتر ہوکر اس عظیم منصوبے کو ضیاع ہونے سے بچائیں۔