ہندوستان میں جی آئی ایس قانون 1999 میں بنا پاکستان میں ابھی تک نہیں بنا،قائمہ کمیٹی برائے تجارت کو بریفنگ

ہندوستان کے باسمتی چاول کا جی آئی ایس 2014 میں منظور ہوا،پاکستان کو سب سے بڑا نقصان باسمتی چاول کے برآمد کا ہوا،دوبئی میں پاکستانی چاول پر بھارتی مہریں لگ کر فروخت ہوا،اس قانون سازی کے بعد پاکستان کے باسمتی چاول کو تحفظ حاصل ہوگا، چیئرمین آئی پی او

جمعہ 24 جنوری 2020 00:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جنوری2020ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے تجارت کو بتایاگیا ہے کہ ہندوستان میں جی آئی ایس قانون 1999 میں بنا پاکستان میں ابھی تک نہیں بنا،ہندوستان کے باسمتی چاول کا جی آئی ایس 2014 میں منظور ہوا،پاکستان کو سب سے بڑا نقصان باسمتی چاول کے برآمد کا ہوا،دوبئی میں پاکستانی چاول پر بھارتی مہریں لگ کر فروخت ہوا،اس قانون سازی کے بعد پاکستان کے باسمتی چاول کو تحفظ حاصل ہوگا۔

جمعرات کو سینیٹ قائمہ کمیٹی تجارت کا اجلاس سینیٹر مرزا محمد آفریدی کی صدارت میں ہوا جس میں جیو گرافیکل انڈیکیشن کے بل پر بحث کی گئی ۔مرزا آفریدی نے کہاکہ پاکستان کی مصنوعات بیرون ملک کسی اور ملک کے نام سے فروخت ہوتی ہیں۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ پاکستان کا چاول بھارتی مہر سے فروخت ہورہا ہے، اب اس قانون کے تحت یہ کام بند ہوجائیگا۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ اس بل کی منظوری سے پاکستانی برآمدات بڑھیں گی۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ اس اہم قانون سازی میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی وہ کون سے محرکات تھے جو رکاوٹ تھے ہمیں بتایا جائے۔ مجیب احمد خان چیئر مین آئی پی او نے کہاکہ یہ قانون 2005 میں بنا تھا، 4 سال پہلے اس بل کا حتمی ڈرافٹ بنا۔ انہوںنے کہاکہ اس میں تاخیر کی وجہ پروسیجر ہے۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ آئین بنانے میں اتنی دیر نہیں لگی ایک قانون بنانے میں اتنا عرصہ لگ گیا۔ چیئر مین آئی پی او نے کہاکہ قانون بنانے میں وقت لگتا ہے، ڈرافٹ کابینہ ڈویژن گیا، وزارت قانون سے وزارت تجارت کے پاس آیا۔ چیئرمین آئی پی او نے کہاکہ 30جنوری 2018 کو قانون کابینہ کی قانونی کمیٹی نے منظوری دی۔ انہوںنے کہاکہ 20اگست 2019 کو کابینہ نے اس کی منظوری دی، یکم جنوری 2020 کو یہ قانون سینیٹ میں پیش ہوا۔

سینیٹر شبلی فرازنے کہاکہ 4سال پہلے سیکرٹری تجارت نے ہمیں اس قانون پر ان کیمرہ بریفنگ دی،اس قانون پر ہمیں ایسے بریفنگ دی گئی جیسے کوئی نیوکلیئر سیکرٹ ہو۔ اجلاس میں بتایاگیا کہ پاکستان کی 80 اشیاء جی آئی ایس فہرست میں موجود ہے،ہندوستان کی 638 درخواستیں تھیں تاہم 340 اشیاء جی آئی ایس رجسٹرڈ ہے۔ بریفنگ میں بتایاگیاکہ ہندوستان میں جی آئی ایس قانون 1999 میں بنا پاکستان میں ابھی تک نہیں بنا،ہندوستان کے باسمتی چاول کا جی آئی ایس 2014 میں منظور ہوا۔

بریفنگ میں بتایاگیا کہ پاکستان کو سب سے بڑا نقصان باسمتی چاول کے برآمد کا ہوا،دوبئی میں پاکستانی چاول پر بھارتی مہریں لگ کر فروخت ہوا۔ بریفنگ میں بتایاگیا کہ اس قانون سازی کے بعد پاکستان کے باسمتی چاول کو تحفظ حاصل ہوگا۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ ایمرجنگ پاکستان کا بیج تو لگایا ہوا ہے، لیکن ابھی تک ہم اپنی برآمدات کو تحفظ نہیں دے سکے۔ سینیٹر نزہت صادق نے کہاکہ امریکہ میں لوگوں کو معلوم ہے یہ پاکستانی باسمتی چاول ہے اس پر وقت نہیں لگنا چاہیے۔ سینیٹر شبلی فراز نے سوال کیا کہ پاکستانی جی آئی ایس فہرست میں نسوار ہے یا نہیں،کمیٹی میں ان کے سوال پر کشت زعفران بن گئی۔ چیئر مین آئی پی او مجیب الدین نے جواب دیا کہ اس میں نہیں ہے آپ کہیں تو ڈال دیتے ہیں۔