امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کر دیا

منصوبے کے تحت فلسطینی ریاست کا دار الحکومت مشرقی بیت المقدس ہوگا،مغربی کنارے میں اسرائیلی قبضے میں موجود علاقوں کو فلسطینی ریاست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان بدھ 29 جنوری 2020 12:38

امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کر دیا
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 29 جنوری2020ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کر دیا۔منصوبے کے تحت فلسطینی ریاست کا دار الحکومت مشرقی بیت المقدس ہوگا،امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اسرائیل 4 سال کے لیے آباد کاری منصوبوں پر کام روک دے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ میرا پلان اسرائیل اور فلسطین دونوں کے لیے مفید ہے۔

فلسطین اسرائیل کو یہودی مملکت کے طور پر تسلیم کرے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم منتین یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی۔انہوں نے اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے لیے اپنا دو ریاستی فارمولا پیش کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا۔فلسطینی ریاست کا دار الحکومت مشرقی بیت المقدس ہوگا،تاہم انہوں نے واضح کیا کہ منصوبے کے تحت مغربی کنارے کو تقسیم نہیں کیا جائے گا یعنی مغربی کنارے میں اسرائیلی قبضے میں موجود علاقوں کو فلسطینی ریاست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے فلسطینی صدر محمود عباس کو مخاطب کرتے ہوئے زور دیا کہ آپ ہمارا امن منصوبہ تسلیم کریں تو ہم آپ کی مدد کریں گے۔ جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان جاری دیرنیہ تنازع کے حل کے لیے پیش کردہ امن فارمولے کے حوالے سے عالمی برادری ملا جلا ردعمل ظاہر کر رہی ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے ترجمان نے ایک بیان میں بتایا کہ مشرق وسطیٰ کے امن منصوبے پرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بورس جانسن کے درمیان ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی ہے۔

وزیراعظم جانسن نے کہا ہے کہ امن فارمولہ مثبت نکات پر مشتمل ہونا چاہیے تاکہ تمام فریقین اسے قبول کرلیں۔ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں رہ نمائوں کے درمیان امریکا کے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کے نکات پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکی امن پروگرام تجاویز پر مبنی فارمولہ ہے تاہم واشنگٹن کو اپنا فیصلہ مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں۔

وزارت خارجہ کی طرف سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ فریقین بات چیت کے ذریعے اپنے مسائل کے حل پر زور دیں۔روسی نائب وزیر خارجہ میخائل یوگدانوف نے کہا کہ فلسطینی اور اسرائیلی دو ریاستی حل کے لیے خود مذاکرات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکا کی امن تجاویز فریقین کے لیے قابل قبول ہوئیں تو ہم دیگر فریقین کے ردعمل کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔

ترکی نے امریکی صدر کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی امن منصوبہ میں فلسطینی اراضی چوری کرنے اور اسرائیلی ریاست کی قیمت پر فلسطینی ریاست کے قیام کو دبانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ترک وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکی امن منصوبہ امریکا کی طرف سے پیش کردہ امن منصوبہ فلسطینی ریاست کے تصور کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔

جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور خصوصی مشیر جیرڈ کشنر نے کہاہے کہ کہ ٹرمپ منصوبے کی تجویز کردہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مشرقی یروشلم میں ’’ابو دیس‘‘ کے مقام پر ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی فیصلہ کر سکتے ہیں اگر وہ نقشہ پر نظر ڈالیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ان کی ریاست کا دارالحکومت کہاں ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ سنہ 1967ء سے لے کر اب تک یروشلم کی سرحدیں تبدیل ہو چکی ہیں۔

کشنر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کوئی بھی مسلمان مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھ سکتا ہے۔ اردن کو یروشلم میں مقدس مقامات کی سرپرستی کا اختیار حاصل رہے گا۔ایک اور سیاق امریکی صدر کے مشیر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں لچک رکھی گئی ہے۔ اگر فلسطینیوں کو کسی نکتے پر اعتراض ہے تو وہ اس پر بات کرسکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اگر آج ہم اس منصوبے کو عملی شکل نہیں دیتے تو مستقبل میں صورت حال زیادی گھمبیر ہوجائے گی۔ شاید ہمارے ہاتھ سے فلسطینی ریاست کے قیام کا آخری موقع بھی نکل جائے۔