عمران خان سے نعیم الحق کے ساتھ آخری دنوں میں کیے گئے ناروا سلوک کی تحقیقات کا مطالبہ

ساتھیوں نے نعیم الحق کو وقت سے بہت پہلے مار دیا،ڈاکٹرز کے مطابق ہسپتال میں ان کا علاج جاری رکھا جاتا اس بات کا قوی امکان تھا کہ وہ ڈیڑھ مہینے اور زندہ رہتے۔ منصور آفاقی کا کالم میں دعویٰ

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعہ 21 فروری 2020 12:06

عمران خان سے نعیم الحق کے ساتھ آخری دنوں میں کیے گئے ناروا سلوک کی تحقیقات ..
لاہور(اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار-21فروری2020ء) معروف صحافی منصور آفاقئ اپنے حالیہ کالم میں لکھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی نعیم الحق ابھی زندہ تھے مگر ان کے بنگلے پر قبضے کی جنگ شروع ہوگئی تھی۔ان کا عہدہ وزیرمملکت کے برابر تھا اور انکی رہائشگاہ منسٹر کالونی کے ہاوس نمبر 15 میں تھی۔ڈاکٹرز نے بتا دیا تھا کہ وزیر مملکت چند دنوں کے مہمان ہیں جب بیماری شدت اختیار کر گئی تھی تو ان کی ناقدری کا آغاز ہوا اور پھر روز بروز یہ آگے بڑھتی چلی گئی۔

نعیم الحق کراچی نہیں جانا چاہتے تھے انہوں نے باقاعدہ وصیت کی تھی کہ مجھے اسلام آباد دفن کیا جائے۔نعیم الحق نے بنی گالہ کے قبرستان میں اپنے لیے قبر کی جگہ بھی سلیکٹ کی تھی۔افسوس کے جن ساتھیوں پر تکیہ تھا انہوں نے وفا نہ کی۔

(جاری ہے)

جب دیکھا گیا کہ سیاسی امور کے معاون خصوصی بس چند دن کے مہمان ہیں تو انہوں نے ان کے بیٹے کو کراچی سے بلا لیا کہ آئیں اور انہیں اپنے ساتھ کراچی لے جائیں۔

بنگلے پر قبضہ کرنے والوں سے ان کی موت کا انتظار نہیں ہو رہا تھا۔نعیم الحق کے بیٹے امان الحق نے اُن کے ساتھیوں سے کہا کہ وہ کراچی آنے پر تیار نہیں تھے ،میں بھی انہیں کئی بار کہہ چکا ہوں۔جس کے بعد نعیم الحق کو کہا گیا کہ آپ کو لندن لے کر جایا جا رہا ہے جہاں آپ کا علاج کیا جائے گا۔یہ سن کر نعیم اللہ جانے پر راضی ہوگئے اور جاتے جاتے اپنے ملازمین سے ملکر گئے انہوں نے کہا کہ میں علاج کے لیے لندن جا رہا ہوں آپ بے فکر رہیں۔

بہت جلد ٹھیک ہو کر واپس آؤں گا۔جب بیٹا ان کو لے جانے لگا تو وہ ان کے دفتر کا کوئی آدمی موجود نہیں تھا۔اتفاق سے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری ان کی عیادت کے لیے آئے تھے۔وہی ایئرپورٹ تک الوداع کہنے گئے۔ایئرپورٹ پہنچنے پر دیکھا اس کے وزیر کے برابر عہدہ رکھنے والے وزیراعظم کے معاون خصوصی کے لئے سرکاری طور پر کوئی موجود نہیں تھا جو ان کے لیے ویل چیئر منگواتا۔

قاسم سوری میں اپنے سٹاف کو بلاکر وہیل چئیر کا اہتمام کیا۔اس طرح سے انہیں بڑی مشکل سے جہاز کی نشست پر بٹھایا گیا۔جب جہاز لندن کے بجائے کراچی ایئر پورٹ پر اترا اور نعیم الحق کا بیٹا اپنے گھر لے آیا تو انہیں معلوم ہوگیا کہ ان کے ساتھ کیا کیا گیا۔منصورآفاقی مزید لکھتے ہیں کہ نعیم الحق کو معلوم ہو گیا کہ انہیں مرنے کے لیے گھر بھیج دیا گیا ہے یہ خبر ان کے لیے اس کی موت سے زیادہ تکلیف دی تھی سو وقت سے پہلے دنیا سے رخصت ہو گیا۔

ڈاکٹرز کے خیال کے مطابق ہسپتال میں ان کا علاج جاری رکھا جاتا اس بات کا قوی امکان تھا کہ وہ ڈیڑھ مہینے اور زندہ رہتے۔منصورآفاقی مزید کہتے ہیں کہ عمران خان کو چاہیے کہ وہ تحقیقات کرائی کی آخری دنوں میں نعیم الحق کے ساتھ ایسا سلوک کن لوگوں نے کیا اگر وزیر اس حالت میں مر جائے تو کسی اور کے ساتھ کیا انصاف ہوگا۔یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ انہیں کراچی اور اسلام آباد میں پروٹوکول کیوں نہیں دیا گیا انہیں گھر سے ائیرپورٹس ایمبولینس فراہم کیوں نہیں کی گئی۔