سلسلہ وار ساتویں این ایف سی بارے ان نکات اور مزاکرات پیش کرونگا، جن کا ذکر اخبارات اور میڈیا کے زریعہ آپ تک نہیں پہنچا ہوگا،سابق بیوروکریٹ محفوظ علی خان

پیر 20 اپریل 2020 22:31

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 اپریل2020ء) سابق بیوروکریٹ محفوظ علی خان نے کہا ہے کہ میں سلسلہ وار ساتویں این ایف سی کے بارے میں ان نکات اور مزاکرات پیش کرونگا، جن کا زکر اخبارات اور میڈیا کے زریعہ آپ تک نہیں پہنچا ئونگا- میری کوشش ہوگی کہ بلوچستان کا کیس آپکے سامنے رکھوں تاکہ آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوساتویں این ایف سی میں پہلی مرتبہ آبادی کے علاوہ دیگر عوامل کو بھی شامل کرنے کا عندیہ دیا گیا انہوں نے کہاہے کہ ان عوامل میں آبادی کے علاوہ پسماندگی، رقبہ، آمدنی میں اضافہ کی کوشش اور (Inverse Population Density) یعنی پھیلی ہوئی آبادی بہ مناسبت رقبہ شامل تھے، یہاں تمام عوامل پر بحث مقصد نہیں، صرف بلوچستان کا نکتہ نظر پیش کرونگا، اور یہ کہ اس کے مقابلہ میں صوبوں اور وفاق کے تقابلی دلائل کیا تھی پسماندگی کے تعین کے لئے مختلف بین الاقوامی اداروں کی تحقیقات کو سامنے رکھا گیا تھا، اس بات کے باوجود کہ صوبہ نے کی طرف سے HDI سروے اور Food Insecurity سروے پیش کئے گئے جن کے مطابق بلوچستان کے دس ضلعے ملک کے پسماندہ ترین اضلاع میں آتے تھے، خیر پختونخواہ نے عالمی بنک کے اعداد و شمار کا سہارا لیا، اس لئے پسماندگی کی تقسیم میں شروع ہی سے پختونخواہ کو فوقیت مل گئی،آبادی پر بھی کسی قسم کی بحث نہیں ہو سکتی تھی کہ پنجاب ہر لحاظ سے بڑی آبادی کا صوبہ تھا، آمدنی میں صوبوں کے حصہ کا تخمینہ سندھ کے حق میں جاتا تھا، کیونکہ تمامتر مالیاتی اداروں کے صدر دفتر کراچی میں واقع تھے اور ساتھ ہی قومی بندر گاہ ہونے کے ناطے درآمدات اور برآمدات بھی وہیں سے ہوتی تھیں، اب بات تھی پھیلی ہوئی آبادی اور رقبہ کی، اس لحاظ سے کوئی ابہام نہ تھا، پر پہلے تو پنجاب سمیت سارے صوبوں کا اس پر اتفاق نہیں ہو رہا تھا کہ اس نکتہ کو بھی تقسیم کے فارمولہ میں شامل کیا جائی بہرحال یہ بات اس لئے بھی مانے بغیر چارہ نہ تھا، کہ ہر صوبہ اپنے عوامل کو بھی تو منوانا چاہتا تھا، بلوچستان کی خوش قسمتی تھی کہ پہلی مرتبہ متفرق عوامل کا فارمولہ اپنا یا گیا، اصل مرحلہ بلوچستان کے لئے اپنے حصہ کو پانچ فیصد سے بڑھانا تھا، بلوچستان نے جو فارمولہ بنایا تھا اسکے حساب سے ہم نے پندرہ فیصد طلب کیا، ہمارے بڑے دس فیصد کہتے تھے، میں پندرہ پر بضد تھا، نئے عوامل کے بعد ویسے بھی پنجاب کا فیصد کے حساب سے حصہ گھٹتا نظر آرہا تھا اس لئے اسے +منانا اور اپنے ساتھ ملانا از حد ضروری تھا، لاہور میں اجلاس سے دو دن پہلے ہماری ٹیم وزیراعلی کی سربراہی میں پنجاب کے رہنماں سے مزاکرات کے لئے لاہور پہنچ گئی، اس ٹیم میں وزیراعلی نواب اسلم خان رئیسانی، وزیر خزانہ عاصم کرد گیلو، چیف سیکریٹری ناصر محمود کھوسہ اور راقم شامل تھی. پہلی ملاقات میں وزیراعلی پنجاب نے مشورہ دیا کہ پہلے انکی اور بلوچستان کے ماہرین کی ٹیم بیٹھ کے تکنیکی امور پر غور خوض کرلے، پھر سیاسی رہنما فیصلہ کر لیں گے، یہاں راقم ایک بہت بڑے امتحان میں پھنس گیا، پنجاب کی ٹیم کی سربراہی اسحق ڈار صاحب کر رہے تھے اور انکی معاونت میں عائشہ غوث، جو وزیر خزانہ پنجاب رہ چکی ہیں، غفور مرزا، جو تین سال وفاقی سیکریٹری خزانہ رہ چکے تھے، اور سیکریٹری خزانہ پاشا، بلوچستان کی ٹیم دو افراد، عاصم کرد گیلو، وزیر خزانہ اور راقم یعنی سیکریٹری خزانہ پر مشتمل تھی، یہاں یہ بتا نا ضروری ہے کہ ڈاکٹر عائشہ غوث ایک قومی سطح کی ماہر معاشیات ہیں، اسحق ڈار کامرس کے گولڈ میڈلسٹ ہونے کے ساتھ وفاقی وزیر خزانہ کا قلمدان بھی سنبھال چکے تھے، غفور مرزا بھی کافی تجربہ کار سرکاری افسر تھے، اب یہ اسی طرح ہے جیسے بھولو کا مقابلہ محلے کے پہلوان سے ہو، مجھے دشواری یہ بھی تھی کہ مزاکرات عادت انگریزی میں ہو رہے تھے اور ہمارے ٹیم لیڈر کے لئے اسے سمجھنا اور اس کا جواب دینا دشوار تھا، بہر حال یہ بات قابل تعریف تھی کہ جہاں بات زیادہ تکنیکی ہوتی وہاں وہ مداخلت نہ کرتے، گفتگو کا آغاز وزیر خزانہ نے تحریری بیان سے کیا جو میں نے ان سے بات چیت کے بعد تحریر کیا تھا، چونکہ ہم نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور ان سے تعاون چاہا، ابھی میری بات شروع نہیں ہوئی تھی کہ انکے سیکریٹری خزانہ نے پیش بندی کے طور پر کہا کہ اگر فی کس وسائل کا مقابلہ کیا جائے تو بلوچستان کو پنجاب سے کہیں ذیادہ وسائل دئے جاتے ہیں، چونکہ پاشا صاحب نیپا میں میرے تحت ٹریننگ کر چکا تھا، میں نے اسکی بات تحمل سے سنی اور عرض کیا کہ اگر آپ پہلے سے ذہن بنا چکے ہیں تو پھر بات چیت کی کیا ضرورت، اسحق ڈار صاحب نے سیکریٹری صاحب کی سرزنش کی کہ مہمانوں کا مدعا تو سن لیں، پھر بات ہو گی، میں نے گزارش کی کہ وہ سب ماہرین معیشت ہیں اور میری ہر بات تکنیکی بنیاد پر رد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور چونکہ میں بھی معاشیات کا طالب علم ہوں اس لئے میرے پاس بھی ان کی ہر بات کا توڑ اور جواب موجود ہے، اسطرح ہماری بات آگے نہیں بڑھ سکے گی اور ہم سیاسی قیادت کے سامنے کوئی ٹھوس بات نہیں رکھ پائیں گے، بہتر ہے کہ ہم عام فہم انداز میں اس مسئلہ کا جائزہ لیں، میں نے شروع کیا سیکریٹری کے اعترازی بیان سے کہ بلوچستان کو فی کس کے حساب سے ذیادہ پیسے ملتے ہیں، میں نے عرض کیا کہ بات درست ہے اگر ہم محاصل سے حاصل ہونے والے وسائل کو لوگوں میں کیش کی صورت میں تقسیم کریں، کیا پنجاب پیسے تقسیم کرتا ہے یا عوام کو مختلف سہولتوں کی فراہمی پر پیسے خرچ کرتا ہی یعنی انگریزی میں جسے Goods and Services. کی فراہمی کہتے ہیں جواب حسب توقع تھا کہ اشیا و خدمات کی فراہمی کے لئے، اگر انکے پاس ایک ہزار بچے سکول میں داخل ہیں تو اسکے لئے ایک سکول درکار ہوگا، ہر کلاس میں پچاس بچوں پر ایک ٹیچر لگانا ہوتا ہوگا، اگر اسکے اخراجات بچوں پر تقسیم کئے جائیں تو فی بچہ بہت کم اخراجات آتے ہونگے، بلوچستان میں اگر صرف دو سو بچے ہیں تب بھی پوریسکول کی عمارت تعمیر کرنی پڑیگی اور تمام اساتذہ بھرتی کرنے ہونگے، ایک کلاس میں دس بچوں پر وہی اخراجات آئینگے جو پنجاب میں پچاس پر آتے ہیں، چار لاکھ مربع کلو میٹر پر سڑک بنانا اور تین لاکھ پر بنانے کے اخراجات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، میرا استدلال یہ تھا کہ اگر انکا صوبہ وسائل کا چھپن فیصد لیتا رہے اور بلوچستان کو پانچ فیصد دیا جائے تو یہ فرق اتنا بڑھ جائیگا اور اس سے جنم لینے والے مسائل اس نوعیت کے ہونگے کہ پھر کوئی تدبیر کام نہ آئیگی، ملکی شہری ہونے کے ناطے بلوچستان کے بھی ہر شہری کو ان تمام بنیادی ضروریات کی فراہمی مملکت کا فرض ہے جو دیگر صوبوں موجود ہیں، یہ ایک آئینی حق ہے، اور دوسری بات یہ کہ انکی پسماندگی اور وسائل کی کمی انکی کوتاہی کی وجہ سی پ*نہیں ہے، اسحق ڈار صاحب اپنی عادت سے مجبور تھے انہوں نے حسب سابق پڑھا پڑھایا سبق دہرا دیا کہ بلوچستان کو اسکی ضرورت سے ذیادہ مل رہا ہے، فیصلہ وزرائے اعلی نے کرنا تھا، وہاں نواب رئیسانی صاحب کو بتا دیا تھا کہ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پھر ہمیں وہی افسر شاہی کے ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑیگا، نواب صاحب بھی اپنی جگہ ڈٹ گئے اور بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ہم اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے اور پہلی دفعہ بلوچستان کا حصہ خاطر خواہ حد تک بڑھ گیا�

(جاری ہے)