نیا بجٹ مشکل حالات میں بنے گا، بے روزگاری کی ایک بڑی لہر آنے کا خدشہ ہے،زبیرطفیل

ٹیکس آمدن مسلسل کم ہورہی ہے، ٹیکس آمدنی کا ہدف ساڑھے 15 کھرب کی کمی سے تقریباً40 کھرب حاصل ہوسکتا ہے ٹیکسوں میں کمی کی جائے،نیا ٹیکس عائد نہ کیا جائے، ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے ،سابق صدر ایف پی سی سی آئی کی بجٹ تجاویز

اتوار 31 مئی 2020 20:40

'کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 مئی2020ء) سابق صدر ،فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور دیکریٹری جنرل یونائٹیڈ بزنس گروپ(یو بی جی)زبیرطفیل نے کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں بے روزگاری کی ایک بڑی لہر آنے کا خدشہ ہے، ملک بڑی صنعتیں بھی بندش کا شکار ہیں، پیداواری عمل رٴْکنے کے سبب بے روزگاری بڑھ رہی ہے جبکہ حکومتی آمدنی میں کمی بھی خاطر خواہ واقع آرہی ہے۔

آٹو موبیل، ٹیکسٹائل جیسی تمام بڑی صنعتیں کام نہیں کر پا رہی ہیں جس کے سبب حکومت کو ٹیکس وصول نہیں ہو رہا ہے،پاکستان کی ٹیکس آمدن مسلسل کم ہورہی ہے اور پاکستان کا ٹیکس آمدنی کا ہدف ساڑھے 55 کھرب روپے تھا لیکن اب خدشہ ہے کہ یہ 40 کھرب کے قریب وصول ہوگا، ان حالات میں حکومت کیلئے ایک متوازن بجٹ تیار کرنا ایک مشکل دکھائی دیتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے آئندہ مالی سال 2020-21 کے وفاقی بجٹ کے حوالے سے کہا کہ حکومت نے کورونا سے متاثرہ افراد کیلئے 12کھرب کا ریلیف پیکیچ کا اعلان کیا ہے لیکن یہ پیسے کہاں سے آئیں گے، حکومت اس کیلئے مزید قرض لے گی یا نوٹ چھاپے گی جس کا اثر افراط زر پرمنفی پڑے گا، حکومت مثبت پالیسی کے ذریعے عوام کو ریلیف مہیا کرے، عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک بھرپور اندازمیں پہنچایا جائے، بجلی کی قیمتوں میںکمی کی جائے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں انتہائی حد تک کمی ہوئی ہے اس لئے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کو یقینی بنایا جائے، اس سے مہنگائی میں کافی کمی واقع ہو سکتی ہے اور عوام کی قوت خرید میں اضافہ کیا جا سکتا ہے،بجٹ میں صنعتوں کیلئے مراعات کا اعلان کیا جائے۔

زبیرطفیل نے کہا کہ پاکستان کے قرضے گزشتہ دو برسوں میں تیزی سے بڑھے ہیں اور ان کی ادائیگی وقت کے ساتھ ساتھ مشکل تر ہوتی جا رہی تھی تاہم کورونا کے سبب ہمارے بیرونی قرضے ری شیڈول کئے جا رہے ہیں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور دیگر اداروں نے پاکستان کے قرضوں کی ادائیگی میں ایک سال کی مہلت دی ہے۔ اس سے پاکستان پر سے وقتی دبائو ہٹ جائے گا کیونکہ بجٹ میں ایک بڑا امائونٹ قرضوں کی ادائیگی میں جاتا ہے اور اس برس اندازہ تھا کہ یہ رقم مجموعی آمدنی کے تقریباً برابر ہوگی۔

امریکا اور دیگر بڑے ممالک غریب ملکوں کا قرضہ معاف کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں اگر ایسا ہوا یا پاکستان کو دو تین سال کی مہلت مل جاتی ہے تو پاکستان کی معیشت کو سانس مل جائے گی۔ قرضوں کی ادائیگی نہ کرنے سے زرمبادلہ کے ذخائر پر سے بھی دبائو کم ہو جائے گا۔ اس دوران معیشت کی گاڑی کو رواں رکھا جا سکے گا۔ آئی ایم ایف سے بھی دوبارہ بات چیت ہو رہی ہے ادارے نے پہلے ہی قرضوں کی ادائیگی میں نرمی دکھائی ہے اور مزید نرمی پاکستانی معیشت کیلئے اچھی خبر ہوگی۔

زبیرطفیل نے اپنی تجاویز میں مزید کہا کہ ٹیکسوں میں کمی کی جائے، کوئی نیا ٹیکس عائد نہ کیا جائے، ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے،صنعتوں کو ریلیف دیا جائے گا تو اس سے بے روزگاری کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، حکومت شرح سود میں مزید کمی کرے اور اسے پانچ فیصد پر لایا جائے، بے روزگار افراد کیلئے قرضوں کی اسکیم شروع کی جائے، چھوٹے قرضے زیر یا بہت کم شرح سود پر دیئے جائیں، شرح سود میں کمی سے انڈسٹری میں نئی سرمایہ کاری ہوگی، لیزنگ کا کاروبار دوبارہ شروع ہوگا لوگ گھروں کاروں کیلئے قرض لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ تعمیراتی صنعت کیلئے حکومت کا پیکیج مناسب ہے لیکن اس کے چلنے میں بڑی رکاوٹ سریئے اور سیمنٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہے حکومت ان اشیاء پر ٹیکس کم کرے تاکہ نہ صرف تعمیراتی شعبہ کام کرے بلکہ اس کے چلنے سے اس سے منسلک چالیس انڈسٹریاں بھی چلیں گی۔ حکومت صنعتوں کو چلانے کیلئے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرے، چینی اور آٹے کے اسکینڈل کو منطقی انجام تک پہنچانا، کورونا کے سبب ہیلتھ کیئر سیکٹر میں کام کرنے کی بڑی ضرورت ہے، صحت کے شعبے میں فنڈنگ بڑھائی جائے،بڑی صنعتوں کے ساتھ چھوٹی صنعتوں کیلئے بھی ریلیف پیکیچ دیا جائے اور انہیں کم شرح سود پر قرضے دیئے جائیں۔

زبیرطفیل نے مزید کہا کہ برآمدات میں اضافہ گزشتہ کئی برسوں سے نہیں ہوسکا، روپے کی بے قدری نے بھی اس شعبے پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا اس برس بھی 23 سی24 ارب ڈالر تک محدود ہے، زرمبادلہ کا دوسرا اہم شعبہ ترسیلات زر میں جو بیرون ملک مقیم پاکستان اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ اس میں خدشہ ہے کہ اب کمی واقع ہوگی۔ کورونا وبا نے دنیا بھر میں کاروبار کو متاثر کیا ہے۔

لاک ڈائون کے سبب بے روزگاری کا گراف بہت تیزی سے اوپر گیا ہے جس کے اثرات ترسیلات زر پر پڑیں گے۔ خدشہ ہے کہ اس میں 22فیصد تک کمی واقع ہوگی۔ پاکستان براAمدات میں بھی 30فیصد کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ امریکا یورپ ہماری بڑی مارکیٹیں ہیں۔ ٹیکسٹائل مصنوعات زیادہ تر ان ہی ملکوں میں برآمد کی جاتی ہیں۔برآمدکنندگان کیلئے مایوسی کی بات یہ ہے کہ رواں سیزن کے تمام آرڈرز منسوخ ہو چکے ہیں۔

نئے آرڈرز کا بھی ابھی کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ لاک ڈائون کھلے، حالات نارمل ہوں، شاپنگ مال مکمل طور سے کھلیں،ملکی وغیرملکی فلائٹس چلیں، بھرپور طریقے پرخرید و فروخت شروع ہو تو کاروبار بحال ہوگا لیکن اس میں ابھی وقت لگے گا۔انکا کہنا تھا کہ پوری دنیا اس وقت کورونا وبا کے سبب شدید مشکلات کا شکار ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً4 تین لاکھ اور امریکا میں تقریباً ایک لاکھ افراد20ہزار افرادہلاک ہوچکے ہیں۔

کورونا وبا کے سبب تمام دنیا اور بڑی عالمی معیشتیں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ امریکا، یورپ، مڈل ایسٹ کے ممالک بھی چین سے شروع ہونے والی وبا سے شدید متاثر ہیں۔ پاکستان ترقی پذیر ملکوں میں شمارکیا جا تا ہے جہاں کورونا وبا کا پھیلائو بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک کے ناتے ہماری معیشت ویسے ہی مشکلات سے نبرد آزما تھی اب کورونا وائرس کا اس پر مزید منفی اثر آئے گا اور مسائل دوچند ہو جائیں گے۔

گزشتہ برس سے ہی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے سبب کاروبار میں دشواریاں تھیں، صنعتیں بند ہو رہی تھیں، سرمایہ کاری نہیں ہو رہی تھی۔ کورونا نے کاروبار کو ناممکن بنا دیا ہے۔ ان حالات میں آئندہ مالی برس کا بجٹ تیار کیا جا رہا ہے جب پاکستان کی آمدنی کے تمام وسائل میں کمی کے اشارے ہیں۔