چونکہ کووِڈ-19 کی وجہ سے اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں، لہٰذا تمباکو کمپنیوں کا تمباکو نوشی سے متعلقہ طبی نقصانات کے لیے احتساب کیا جانا چاہیے

چونکہ کووِڈ-19 (کورونا وائرس) کی عالمی وباء پھیلتی جا رہی ہے، STOP (سٹاپنگ ٹوبیکو آرگنائزیشنز اینڈ پراڈکٹس)، تمباکو کی صنعت کے ایک عالمی نگران، نے درج ذیل بیان جاری کیا

Umer Jamshaid عمر جمشید بدھ 10 جون 2020 20:11

نیو یارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 10 جون2020ء) چونکہ کووِڈ-19 (کورونا وائرس) کی عالمی وباء پھیلتی جا رہی ہے، STOP (سٹاپنگ ٹوبیکو آرگنائزیشنز اینڈ پراڈکٹس)، تمباکو کی صنعت کے ایک عالمی نگران، نے درج ذیل بیان جاری کیا، جس میں حکومتوں اور سول سوسائٹی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تمباکو کمپنیوں کا اس بوجھ کے لیے احتساب کریں، جو انہوں نے لوگوں اور طبی نظاموں پر ڈالا ہے:
"تمباکو کی کمپنیوں نے تقریبًا یقینی طور پر کووِڈ-19 کی عالمی وباء کو بدتر بنا دیا ہے۔

دہائیوں کی مسلسل مارکیٹنگ اور اپنی زہریلی، نشہ آور مصنوعات کی فروخت نے پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں کی صحت کو کمزور بنا دیا ہے۔ تمباکو سے متعلقہ بیماریوں سے پیدا ہونے والے علاج کے اخراجات نے نگہداشت صحت کے نظاموں پر شدید دباؤ ڈال دیا ہے۔

(جاری ہے)


تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد عمومًا پھیپھڑوں کی انفیکشنز کے زیادہ خطرے پر ہوتے ہیں، مثلًا نمونیا، فلو اور تپ دق۔

تمباکو نوشی جسم کے دفاعی نظام کو بھی کمزور کرتی ہے اور منتقل نہ ہونی والی بیماریوں، مثلًا دل اور خون کی نالیوں کی بیماری، سانس کی دائمی بیماری اور کینسر کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ابتدائی مطالعہ جات بتاتے ہیں کہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد اور منتقل نہ ہونے والی بیماریوں کے حامل لوگ، جنہیں کورونا وائرس لاحق ہوتا ہے، انہیں بیماری کے زیادہ بڑھنے اور بدتر نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی کا صرف جسمانی عمل بھی تمباکو نوشی کرنے والے افراد کو کورونا وائرس کی زد میں لا سکتا ہے، کیونکہ ہاتھوں کے منہ سے اضافی رابطے اور ممکنہ طور پر آلودہ اشیاء سے سامنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اگرچہ تمباکو نوشی کرنے والے لاکھوں افراد تمباکو سے جڑی بیماریوں اور ممکنہ طور پر کورونا وائرس کے برے نتائج سے لڑ رہے ہیں، تمباکو کمپنیوں کی جانب سے سگریٹس کی فروخت کو روکنے اور اسے ترک کرنے کو فروغ دینے کی کوششوں کو کمزور کرنا جاری ہے۔

مثال کے طور پر بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک میں، تمباکو کمپنیوں نے کامیابی سے اپنی مصنوعات بنانا اور فروخت کرنا جاری رکھنے کے لیے استثناء حاصل کر لیے ہیں۔ یہاں تک کہ فلپ مورس برازیل کی ملکیتی ایک فیکٹری نے اپنی مصنوعات کیتیاری بھی بڑھا دی ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وباء سے پہلے بھی، تمباکو پوری دنیا میں طبی نظاموں پر شدید بوجھ ڈالتا تھا۔

2018 کے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک مطالعے میں اندازہ لگایا گیا کہ ایک سال میں طبی اخراجات میں سے $462 بلین تمباکو نوشی کی وجہ سے تھے۔ اب جبکہ نگہداشت صحت کے نظام کورونا وائرس کے مریضوں میں بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے تنجائش بڑھا رہے ہیں اور کچھ حکومتیں اپنی معیشتوں کو دوبارہ کھولنے کی تیاری کر رہی ہیں، ناکافی عوامی طبی سہولیات اور انفراسٹرکچر کے لیے مزید فنڈنگ کی ضرورت ہو گی۔

غریب ممالک کے لیے بیماری کے بڑھنے کی بدتر پیشگوئی کی گئی ہے: مثال کے طور پر، دی اکانمسٹ کی خبر کے مطابق پاکستان میں فی کس طبی خرچ امریکہ کے مقابلے میں دو سو کا ایک حصہ ہے۔
 اس کے باوجود، تمباکو کمپنیاں غیر معمولی منافع جات حاصل کر رہی ہیں۔ کارپوریٹ اکاؤنٹیبلٹی انٹرنیشنل کے مطابق، پانچ بڑی بین الاقوامی تمباکو کمپنیوں نے 2016 میں $35 بلین منافع جات کمائے۔


فلپ مورس انٹرنیشنل نے 2019 میں اکیلے $7.1 بلین کی کل آمدنی ظاہر کی۔
 ہماری نظر میں تمباکو کمپنیوں کو لازمی طور پر اس نقصان کے لیے ادائیگی کرنی ہو گی، جو تمباکو نوشی نے اس عالمی وباء سے پہلے کیا ہے اور جواب تک جاری ہے، جبکہ دنیا کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے جتن کر رہی ہے۔ حکومتوں کے پاس کئی انتخابات ہیں:
•    تمباکو پر ایکسائز ٹیکس بڑھائے جائیں: تمباکو پر ٹیکس تمباکو کے استعمال کو کم کرنے اور حکومتی آمدنی کو بڑھانے کے مؤثر ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔

زیادہ تر LMICs / ممالک میں، تمباکو کے ٹیکس کم رہتے ہیں اور تمباکو کی مصنوعات قابل استطاعت رہنا جاری ہیں۔ مثلًا برطانیہ تمباکو پر ایکسائز ٹیکسز کی مد میں 9 بلین پونڈ سے زیادہ وصول کرتا ہے اور فلپائن تمباکو پر ٹیکس کو یونیورسل ہیلتھ کیئر کے لیے فنڈ فراہم کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔    
•    ذمہ داری: ایسی حکومتیں، جنہوں نے فریم ورک کنوینشن آن ٹوبیکو کنٹرول، ایک عالمی معاہدہ، کی تصدیق کی ہے، وہ تمباکو کی کمپنیوں کو انتظامی، فوجداری اور مجرمانہ ذمہ داری کے قوانین/ طریقہ ہائے کار کے ذریعے ان کی خلاف ورزیوں کے لیے معاشی طور پر ذمہ دار ٹھہرا سکتی ہیں۔

نگہداشت صحت کے اخراجات کی وصولی کی کوششیں نگہداشت صحت کے نظاموں کو معاونت فراہم کرنے کے لیے بے حد ضروری فنڈز جمع کر سکتی ہیں۔ برازیل کی حکومت قانونی کارروائی کی کوشش کرنے والی حالیہ ترین حکومتوں میں سے ہے؛ یہ تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کے معاوضے کے حوالے سے فلپ مورس انٹرنیشنل اور برٹش امیریکن ٹوبیکو پر مقدمہ کر رہی ہے۔
•    تمباکو کی فروخت کا خرچ بڑھایا جائے: حکومتیں تمباکو نوشی چھوڑنے کی خدمات کے فنڈ فراہم کرنے کے لیے تمباکو کی کمپنیوں پر فیسیں لگا سکتی ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ایسی فیسوں میں درج ذیل شامل ہو سکتی ہیں:
o    تمباکو کی تیاری کی فیسیں
o    درآمد کرنے کے لائسنس کی فیسیں
o    مصنوعات کی رجسٹریشن کی فیسیں
o    ڈسٹریبیوٹرز اور پروچون فروشوں کے لیے تمباکو کی فروخت کے لائسنس
o    تمباکو کی صنعت اور پرشون فروشوں پر عدم پابندی کی فیسوں کا اطلاق، مثلًا انتظامی معاشی جرمانے
o    تمباکو کی نگرانی/کے کنٹرول کے لیے تمباکو کی صنعت اور پرچون فروشوں پر سالانہ فیسیں۔


•    ترجیحی سلوک اور بچ نکلنے کے راستوں کو ختم کرنا: تمباکو کمپنیاں کچھ ممالک میں ٹیکس کی کمی، استثناء اور ترجیح سلوک موصول کرتی ہیں۔ مثلًا، کمبوڈیا نے 3,000 ٹن سے زائد تمباکو پیدا کرنے والے رجسٹر شدہ کسانوں کے لیے ویت نام کو برآمد ہونے والے تمباکو کے پتوں پر ڈیوٹیز معاف کر دیں۔
تمباکو کمپنیوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ کووِڈ-19 کی عالمی وباء کے دوران "شرمناک پبلسٹی اسٹنٹ[س]" میں ملوث رہا ہے۔

انہوں نے صحت کی وزارتوں کو وینٹیلیٹرز، ماسکز اور پانی کی پیشکش کی ہے اور خیراتی اداروں کو عطیات دیے ہیں۔ یہ علامتی افعال ان کے پیدا کردہ نقصان اور لوگوں اور حکومتوں سے نکالے گئے منافع کی نسبت ماند پڑ جاتے ہیں۔
کورونا وائرس کی عالمی وباء اور تمباکو کی بیماری کی انسانی قیمت شاید آخر کار ناقابل حساب ہو، مگر نگہداشت صحت، معاشی بحالی اور بہتر عوامی طبی سہولیات میں سرمایہ کاری کے اخراجات جلد ہی واضح طور پر توجہ کا مرکز بن جائیں گےل۔ حکومتوں کے پاس مؤثر پالیسیوں کے ذریعے تمباکو نوشی چھوڑنے کو فروغ دینے کی طاقت ہے اور وہ یقینًا تمباکو کمپنیوں سے اس نقصان کی وصولی کر سکتی ہیں، جو انہوں نے اس عالمی وباء سے پہلے اور اس کے دوران پہنچایا ہے۔"