جرمنی میں مستحق شہریوں کو 47 بلین یورو کی ریکارڈ ادائیگیاں

DW ڈی ڈبلیو اتوار 17 اگست 2025 12:40

جرمنی میں مستحق شہریوں کو 47 بلین یورو کی ریکارڈ ادائیگیاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اگست 2025ء) یہ معلومات جرمنی کی سوشل افیئرز منسٹری نےدائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کے ایک پارلیمانی سوال کے جواب میں فراہم کیں۔ مستحق افراد کے لیے ان ادائیگیوں میں اضافے نے ملکی ویلفیئر پالیسیوں کے حوالے سے سیاسی بحث کو ہوا دی ہے، جبکہ ماہرین اسے افراط زر اور معاشی حالات سے جوڑتے ہیں۔

حکومت کی طرف سے یہ سماجی امداد کسے ملتی ہے؟

بُرگرگیلڈ جرمنی کے بنیادی ویلفیئر پروگرام کا نام ہے اور اس کے تحت اُن افراد کو مالی امداد فراہم کی جاتی ہے، جو اپنی بنیادی ضروریات (جیسے رہائش، خوراک اور دیگر اخراجات) پورا کرنے کے قابل نہ ہوں۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر ان لوگوں کے لیے ہے، جو کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بے روزگار ہیں یا ان کی آمدنی ان کے اخراجات کے لیے ناکافی ہے۔

(جاری ہے)

سماجی امداد کی تقسیم اور وصول کنندگان

رپورٹ کے مطابق 2024 میں حکومتی مالی امداد کے کل 5.5 ملین وصول کنندگان تھے، جن میں بچوں اور نوجوانوں سمیت تقریباً چار ملین افراد کام کی صلاحیت رکھتے تھے، یعنی وہ دن میں کم از کم تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ کل ادائیگیوں کا 52.6 فیصد (24.7 بلین یورو) جرمن شہریوں کو دیا گیا، جبکہ 47.4 فیصد (22.2 بلین یورو) جرمنی میں مقیم غیرملکی شہریوں کو ادا کیا گیا۔

یہ تقسیم گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً یکساں ہے۔

غیر ملکی وصول کنندگان میں لاکھوں یوکرینی پناہ گزین شامل ہیں، جو سن 2022 سے روس کی اپنے ملک کے خلاف جنگ سے فرار ہو کر جرمنی آئے۔ انہیں 6.3 بلین یورو ادا کیے گئے۔

اے ایف ڈی کی طرف سے تنقید

اے ایف ڈی کی رکن پارلیمان رینے اشپرنگر نے ان مالی ادائیگیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا، '' یہ اخراجات بے قابو ہو رہے ہیں۔

‘‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ '' سوائے استثنائی صورتوں کے غیر ملکیوں کی اس مالی امداد تک رسائی ختم کیا جائے۔‘‘ تاہم انہوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ جرمنی میں کام کرنے والے غیر جرمن شہری بھی ٹیکس ادائیگیوں کے ذریعے اس نظام میں حصہ ڈالتے ہیں۔

جرمنی کی فلاحی ریاست، اصلاحات ’ناگزیر‘ ہیں

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

نیورمبرگ کے انسٹی ٹیوٹ فار ایمپلائمنٹ ریسرچ (آئی اے بی) کے ماہر اینزو ویبر نے اشپرنگر کے موقف کی مخالفت کی۔

انہوں نے کہا کہ اخراجات میں اضافہ سن 2023 اور 2024ء میں افراط زر اور معیاری نرخوں میں نمایاں اضافے کی وجہ سے ہوا۔ انہوں نے ڈوئچے پریس ایجنسی (ڈی پی اے) سے بات کرتے ہوئے کہا، ''یہ کوئی مسلسل رجحان نہیں ہے، جو مستقبل میں جاری رہے گا۔‘‘ ویبر نے مزید بتایا کہ سن 2024 کے موسم خزاں سے کام کی صلاحیت رکھنے والے وصول کنندگان کی تعداد میں کمی آئی ہے، جو ایک ''تبدیلی‘‘ کی نشاندہی ہے۔

ویبر نے اس بات پر زور دیا کہ حکومتی مالی امداد کے تقریباً نصف وصول کنندگان کے غیر جرمن ہونے کی وجہ قابل فہم ہے۔ انہوں نے کہا، ''جو لوگ جرمنی میں پہلے سے ملازمت کر رہے ہیں، وہ بے روزگاری کی صورت میں عام طور پر ایک سال تک بے روزگاری انشورنس کے فوائد حاصل کرتے ہیں اور اس دوران اکثر نئی ملازمت ڈھونڈ لیتے ہیں۔ لیکن پناہ گزین جرمن لیبر مارکیٹ میں بغیر تیاری کے داخل ہوتے ہیں اور انہیں نمایاں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

‘‘

سماجی گروہوں میں تقسیم کی کوشش

اعداد و شمار کے مطابق یوکرینی پناہ گزینوں میں بھی روزگار کی شرح بڑھ رہی ہے، جو اکتوبر 2023 میں 24.8 فیصد سے بڑھ کر حال ہی میں 33.2 فیصد ہو گئی ہے۔

تاہم ویبر نے کہا کہ جرمن زبان سیکھنے کے کورسز اور پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعے انضمام کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب جرمن ٹریڈ یونین کنفیڈریشن (ڈی جی بی) نے بھی اے ایف ڈی کے مطالبات کی مخالفت کی ہے۔

اس بورڈ کی خاتون ممبر آنیا پیئل کا کہنا تھا، ''اے ایف ڈی کے پاس کوئی تعمیری پالیسی نہیں، اس کے پاس صرف تارکین وطن یا سماجی فوائد کے حقدار افراد کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک ہے۔ ہر شخص کو ضرورت کے وقت بنیادی تحفظ کا حق حاصل ہے۔ سماجی ترقی ہماری جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔‘‘

اسی طرح سوشل ایسوسی ایشن جرمنی کی چیف ایگزیکٹو مائیکیلا اینگلمائیر نے کہا، ''سماجی گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا، چاہے وہ ملازمت پیشہ افراد بمقابلہ پنشنرز ہوں یا جرمن بمقابلہ غیر جرمن، خطرناک ہے۔

یہ رجحان معاشرے کی تقسیم کو ہوا دیتا ہے اور اس طرح حسد، نفرت اور اشتعال انگیزی کا زہریلا ماحول بنتا ہے۔‘‘

تاہم جرمنی کے ادارہ برائے لیبر مارکیٹ پالیسی کے ترجمان مارک بیادات نے اخراجات میں اضافے کو ''خطرے کی گھنٹی‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ''یہ صورتحال اصلاحات کے دباؤ کو بڑھاتی ہے۔ جرمنی کو فوری طور پرنئی بنیادی سکیورٹی پالیسی کی ضرورت ہے، جو کام کو ترجیح دے، ملازمتوں کی تقسیم کو مضبوط کرے اور واضح تعاون کے فرائض متعارف کرائے۔‘‘ انہوں نے وفاقی خاتون وزیر لیبر بیربل باس سے کہا کہ ان کی وزارت کو اب نتائج دینا ہوں گے۔

ادارت: شکور رحیم