اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم دیدیا

عدالت کاکلب کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم‘وزیرخارجہ عمل درآمد کرواکررپورٹ پیش کریں. چیف جسٹس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 23 جولائی 2020 13:20

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم دیدیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جولائی ۔2020ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے راول ڈیم کے کنارے پاکستان بحریہ کی جانب مبینہ طور پر غیرقانونی طور پر تعمیر کیے گئے نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم دے دیا ہے. اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کے ذریعے اس کلب کو سیل کروائیں انہوں نے پاکستان نیوی کلب کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم بھی دیا ہے.

(جاری ہے)

عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ اگر کلب سیل نہ کیا گیا تو آئندہ سماعت پر سیکرٹری کابینہ عدالت میں پیش ہوں‘یاد رہے کہ پاکستان نیوی راول ڈیم کے کنارے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر کر رہی ہے جسے رواں ماہ وفاقی ترقیاتی ادارے نے غیرقانونی قرار دیا تھا تاہم پاکستان بحریہ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جس جگہ یہ تعمیرات ہو رہی ہیں وہ جگہ پاکستان بحریہ کو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے الاٹ کی تھی.

گذشتہ سماعت کے دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ چیئرمین سی ڈی اے کو اس جگہ کے معائنے کے لیے ایک افسر متعین کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی‘اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جمعرات کو اس کلب کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کی تو اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ اس سیلینگ کلب کی تعمیر کے حوالے سے نہ کوئی قانونی دستاویز جاری کیا گیا اور نہ ہی نیوی کو اس ضمن میں کوئی جگہ الاٹ کی گئی ہے.

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود نیوی کے حکام سے استفسار کیا کہ کس اتھارٹی کے تحت پاکستان نیوی کمرشل پراجیکٹ چلا رہی ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ قبائلی علاقے نہیں ملک کا دارالحکومت ہے. انہوں نے نیوی کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بہت قربانی ہے آپ کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ہم آپ کے شہیدوں کی وجہ سے آپ کی قدر کرتے ہیں‘انہوں نے کہا کہ نہ یہ عدالت نہ کوئی اور قانون سے بالاتر ہے‘سماعت کے دوران سی ڈی اے کے بورڈ ممبر نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم نے سیلینگ کلب بنانے کی اجازت دی تھی جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے کے ممبر بورڈ ر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں جو آپ سے پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دیں.

انہوں نے کہا کہ زمین کی الاٹمنٹ کے دستاویزات کہاں ہے؟ سی ڈی اے کے ممبر بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ الاٹمنٹ لیٹر نہیں ہے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سی ڈی اے کے ممبر بورڈ سے استفسار کیا کہ پھر سی ڈی اے نے کیا کارروائی کی اس پر سی ڈی اے کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ اس ضمن میں نوٹسز جاری کیے گئے تھے. عدالت نے ریمارکس دیے کہ جائیں اور جا کر اس غیر قانونی عمارت کو گرائیں انہوں نے کہا کہ غریب آدمی اور طاقتور کے لیے دوہرا معیار کیوں ہے چیف جسٹس نے سی ڈی اے کے ممبر بورڈ سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ نیوی سیلنگ کلب کی عمارت قانونی ہے یا غیرقانونی جس پر سی ڈی اے کے افسر کا کہنا تھا کہ وہ قانون کے بارے میں اتنا نہیں جانتے لیکن ان کی نظر میں نیوی سیلنگ کلب غیرمنظور شدہ ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غیر منظور شدہ کیا ہوتا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ غیرقانونی ہے.

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سی ڈی اے ممبر بورڈ بتانے میں کترا رہے ہیں کہ کمرشل بلڈنگ پاکستان نیوی کی ہے اور غیرقانونی ہے سماعت کے دوران نیوی کے حکام نے عدالت سے استدعا کی کہ ہمیں کچھ وقت دیں ہم جواب جمع کرائیں گے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کس بات کا وقت اس عدالت سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے. انہوں نے کہا کہ آپ کی بہت عزت ہے آپ کے شہیدوں کے لیے ہم کسی قسم کی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن اگر آپ غیرقانونی کام کریں گے تو یہ درست نہیں چیف جسٹس نے نیوی کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیوں اس چیز کا دفاع کر رہے ہیں جس کا دفاع نہیں کر سکتے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سی ڈی اے کا جواب الارمنگ ہے اور وہ اتھارٹی منوانے میں ناکام رہے.

انہوں نے کہا کہ کیوں نہ اس مبینہ غفلت کی وجہ سے سی ڈی اے کے حکام کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے سماعت کے دوران ایڈشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اس معاملے میں عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے اس عمارت کو سیل کریں اس درخواست کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی گئی.