مرکزی کی جانب سے سرکاری ٹی وی پر خیبرپختونخوا کی نمائندگی ختم کرنا افسوسناک اور قابل مذمت ہے،میاں افتخارحسین

اے این پی دورحکومت میں اباسین ٹی وی کیلئے تمام لوازمات پورے کئے گئے لیکن اجازت نہیں دی گئی،بطور صوبائی وزیراطلاعات پختونخوا ریڈیو کی بنیاد رکھی، آج اسکی افادیت اور روزگار کے مواقع سب کے سامنے ہیں،صوبائی سطح پر الگ پختونخوا ٹی وی کیلئے اراضی لی گئی، سامان لاتے وقت مرکز کی جانب سے این او سی نہیں دی گئی،مرکزی سیکرٹری جنرل عوامی نیشنل پارٹی

بدھ 26 اگست 2020 23:29

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 اگست2020ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میان افتخارحسین نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے سرکاری ٹی وی پر خیبرپختونخوا کی نمائندگی ختم کرنا افسوسناک اور قابل مذمت ہے،اے این پی دورحکومت میں اباسین ٹی وی کیلئے تمام لوازمات پورے کئے گئے لیکن اجازت نہیں دی گئی۔ باچاخان مرکز پشاور سے جاری بیان میں اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخارحسین نے کہا کہ بطور صوبائی وزیراطلاعات پختونخوا ریڈیو ایف ایم کی بنیاد رکھی، اسی ریڈیو کے زیر سایہ ضلعی سطح پر بھی ایف ایم ریڈیو سٹیشنز کھولے گئے، آج اسکی افادیت اور روزگار کے مواقع سب کے سامنے ہیں۔

صوبائی سطح پر الگ پختونخوا ٹی وی کیلئے اراضی لینے کے ساتھ ساتھ تمام لوازمات پورے کئے گئے، یہاں تک کہ اے ڈی پی میں اس ٹی وی کیلئے 15 کروڑ روپے مختص کئے گئے لیکن جب سامان باہر ملک سے لانے کا وقت آیا تو مرکز کی جانب سے این او سی نہیں دی گئی جسکی تمام تر ذمہ داری مرکزی حکومت پر بنتی ہے۔

(جاری ہے)

پی ٹی وی کی خیبرپختونخوا کیلئے شاخ اباسین ٹی وی اور صوبائی ٹی وی پختونخوا ٹی وی دونوں کیلئے تمام انتظامات مکمل کرلئے گئے تھے۔

اباسین ٹی وی کیلئے 15کروڑ ماہانہ مانگے گئے تھے ، فردوس عاشق اعوان اس وقت مرکزی وزیراطلاعات تھیں۔اباسین ٹی وی بارے پی ٹی وی پشاور میں اس وقت مرکزی وزیراطلاعات کے ساتھ اجلاس ہوا، منٹس اب بھی پڑے ہیں اور اس وقت کے گورنر اویس غنی اس تمام صورتحال سے آگاہ تھے اور وزیراعلیٰ امیرحیدر خان ہوتی نے اس سلسلے میں تمام تر ذمہ داری لے لی تھی۔

صوبائی حکومت نے اباسین ٹی وی کے تمام اخراجات اٹھانے کی بھی ذمہ داری لی تھی کیونکہ مرکز یہ ذمہ داری اٹھانے کیلئے تیار نہیں تھی۔ ہم نے تمام شرائط مان لئے تھے لیکن دونوں صورتحال میں مرکزی حکومت نے اسکے باوجود بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا اور اسکے بعد مرکزی حکومت کی جانب سے صوبے کے ساتھ امتیازی سلوک میں مزید تیزی آئی۔پی ٹی وی پشاور سنٹر کے ساتھ ہونیوالی زیادتی بارے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے ایک پروڈیوسر کے گانے کیلئے 30لاکھ بجٹ جبکہ پشاور کیلئے سالانہ 24لاکھ بجٹ رکھا گیا ہے۔

علاقائی پروگراموں کیلئے بنائے گئے پی ٹی وی نیشنل پشاور سنٹر میں کام کرنیوالوں کو 2018ء سے کوئی ادائیگی نہیں ہوئی۔پشاور سنٹر میں صرف ایک کیمرہ مین کا ہونا افسوسناک اور شرمناک ہے۔ میاں افتخارحسین کا کہنا تھا کہ سکرپٹ سیکشن، VTR لائبریری،سٹوڈیوز بند پڑے ہیں،کوئی پوچھنے والا نہیں۔پی ٹی وی پشاور سنٹر بند کرنے سے فنکار برادری کے ساتھ ساتھ دیگر ملازمین کو بے روزگار کردیا گیا۔

ا س وقت مرکز اور صوبے میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہے، صوبائی حکومت کو اپنا حق مانگنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب پشاور میں پی ٹی وی کے پروڈکشن، پروگرامز اور ڈراموں کا پورے ملک میں چرچا تھا لیکن آج بدقسمتی یہ ہے کہ سالہا سال گزرنے کے بعد کوئی ایک ڈرامہ، کوئی نیا پروگرام یا کوئی منصوبہ نہیں لایا گیا کیونکہ اس سنٹر کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا اور آج پی ٹی وی پشاور سنٹر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔