کامسیٹس ، پاکستان سمیت پانچ ممالک کے ماحولیاتی سائنس دانوں کو معاشی نمو،فورڈ سیکورٹی اور زراعت کے شعبے میں جدید علم اور تجربات پر مبنی تحقیق میں شراکت داری کے لیے آن لائن پلیٹ فارم کے نتیجے میں ایک جامع اور قابل عمل حکمت عملی وضع

اتوار 27 ستمبر 2020 14:30

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 ستمبر2020ء) کامسیٹس نے پاکستان سمیت پانچ ممالک کے ماحولیاتی سائنس دانوں کو معاشی نمو،فورڈ سیکورٹی اور زراعت کے شعبے میں جدید علم اور تجربات پر مبنی تحقیق میں شراکت داری کے لیے جس آن لائن پلیٹ فارم کا اہتمام کیا تھا،اٴْس کے نتیجے میں ایک جامع اور قابل عمل حکمت عملی وضع کرلی گئی ہے۔

کامسیٹس کے مرکز برائے آب و ہوا اور استحکام (سی سی سی ایس)نے کولمبیا، گیمبیا، گھانا، اردن اور سری لنکا کے ماہرین کو ''عالمی جنوب میں زراعت سے متعلق چیلنجز اور ان کے حل'' کے عنوان سے منعقدہ اس ویب نار میں شرکت کی دعوت دی تھی تاکہ زرعی شعبے کے موضوع پر جدیدعلم اور تجربات پر تبادلہ خیال ہوسکے۔ اس تقریب کاآغاز کامسیٹس سینٹر برائے آب و ہوا اور استحکام کے سربراہ سفیر شاہد کمال کی سربراہی میں ہوا۔

(جاری ہے)

انہوں نے تقریب کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر آب وہوا کا کسی بھی حوالے سے تبدیل ہونا خطے میں علاقائی سطح پر غذاء کے تحفظ کے لیے شدید خطرہ بن چکا ہے، جس سے’’ گول ٹو زیرو ہنگر‘‘ جیسا پائیدار ترقیاتی ہدف بھی بھوک کی نذر ہوسکتاہے اور یہ امکان پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیاہے۔ اس لیے غذائی تحفظ، غذا کی کمی، زراعت کی ترقی اور انسان کی جسمانی نشوونما کے لیے جامع اور مثبت کوششوں کی ضرورت آج زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ا?ج بھی بھوک اور غذائی قلت موت کی سب سے بڑی وجہ شمار ہورہی ہے۔ انہوں نے گلوبل ساؤتھ کی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہوئے کہا کہ عصر حاضر میں خطے کے زیادہ تر ممالک میں کاشتکاری کو ہی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور یہ بات بہت حد تک درست ہے۔اس حقیقت کے باعث مختلف اداروں کی طرف سے جو دانشورانہ معلومات سامنے آرہی ہیں، اٴْس پس منظر میں کامسیٹس کا یہ ویب نار بھی اٴْسی ضمن کی ایک اہم کڑی ہے تاکہ ایک فریم ورک کے اندر خوراک کے حصول اور حفاظت کی راہ میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جامع طریقہ کار پر مبنی کامیابیوں کی داستان کو آپس میں شیئر کرنے اور اس امر کی اہمیت سے متعلق آگاہی کو پھیلایا جاسکے۔

اس ویب نار میں موسمیاتی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر (سی سی آر ڈی) کامسیٹس یونیورسٹی(سی یو آئی) اسلام آبادکے علاوہ نسٹ(نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) اسلام آباد، سینٹرو انٹرنسیونل ڈی فسیکا (سی آئی ایف)کولمبیا،زراعت اور ماحولیاتی سائنس اسکول آف گیمبیا یونیورسٹی (یو ٹی جی) گیمبیا،گھانا کے مٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے سائنس و صنعتی تحقیق (سی ایس آئی آر)کونسل،اردن کی قومی زرعی تحقیقاتی کونسل اور سری لنکا کی یووا ویل لاسا یونیورسٹی کے محققین اور سائنس دانوں نے حصہ لیا۔

ان ماہرین نے ٹیکنالوجی سے چلنے والے ذرائع کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں مختلف ممالک نے بدلتی آب و ہوا کے منظر نامے کے تحت فصل کی زیادہ پیداوار اور زرعی شعبے میں بہتری کے لیے ا?ب پاشی کے طریقوں میں پانی کی بچت کی تکنیکیں سمیت چھتوں پر بارش کے پانی کو زرعی مقصد کے لیے جمع کرکے استعمال میں لانے سے لے کرغذائی زراعت کے لیے مختلف اشیاء کے بڑے چھوٹے گملے نما بیڈ تک بنانے شروع کردیے ہیں۔

انہوں نے بتا یا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے پودوں اوردیگر زرعی فضلہ سے حاصل شدہ (بائیوچار) ایسامادہ جو زرخیزی کو ابھارتا ہے،اٴْس کی اہمیت کوبھی سمجھا جارہا ہے۔ اس ویب نار کے انعقاد سے خوراک کی پیداوار میں خود کفالت کو یقینی بنانے کے لیے جامع اقدامات، مثلاً کیڑے مار کیمیائی ادویات کے استعمال کو محدود کرنا، نامیاتی کاشتکاری اورصحت سے متعلق زرعی غذا کو فروغ دینا اور درآمد ہ متبادل غذا کی پالیسی جیسے موضوعات کوبھی سامنے لایا گیا۔

علاوہ ازیں ویب نار کے دوران ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں فصلوں کی متبادل اقسام کے استعمال سے متعلق سفارشات بھی پیش کی گئیں۔ اس کے ساتھ چھوٹے کاشتکاروں کے لیے مائیکرو فنانس اورکریڈٹ(قرض) میں بہتری اورمزیدآسانی، زرعی شعبے میں عوامی اور نجی شراکت داری میں اضافے، معاشرتی، معاشی، اور ماحولیاتی طول و عرض سے متعلق فوڈ سسٹم کی طرف جامع نقطہ نظرکی ترویج اور زرعی پیداوار میں اضافے کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے زرعی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت پر بھی زوردیاگیا۔