ایف پی سی سی آئی کرونا لاک ڈاؤن کے دوران نے معیشت اور تجارت کے فروغ کیلئے اے این ایف کی خدمات کو تسلیم کرتا ہے، خرم اعجاز

منگل 24 نومبر 2020 18:47

ایف پی سی سی آئی کرونا لاک ڈاؤن کے دوران نے معیشت اور تجارت کے فروغ ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 نومبر2020ء) ایف پی سی سی آئی کے ہیڈ آفس میں پورٹ کنٹرول یونٹ اینٹی نارکوٹکس فورس کے انچارج سے ملاقات کے دوران خرم اعجاز ، نائب صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران عالمی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی تھی،اور یہاں پاکستان میں ایف پی سی سی آئی تجارت اور صنعت کا ایک اعلی ادارہ ہونے باعث ہے صنعت اور تجارت کے فروغ کے لیے اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے تھا۔

ہم لاک ڈاؤن کی سنگین صورتحال کے دوران معیشت کے فروغ کے لیے خدمات انجام دینے پر اے این ایف کے کردار کی بھی تعریف کرتے ہیں۔منشیات کی غیر قانونی برآمد کو روکنے جو کہ عالمی منڈی میں برآمد کے لیے ایک شرط ہے اور پاکستان کی ساکھ کی حفاظت کے لیے خدمات انجام دینے پر اے این ایف کو قابل ستائش سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے بندرگاہوں پر کنٹینر کارگو کی جانچ کے دوران سامان کے نقصانات سے متعلق برآمد کنندگان کی شکایات پر شدید تشویش کا اظہار کیا جو نقصانات خاص طور پر سامان کو دوبار صحیح طرح پیک نہ کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح کسٹم کے لیے پری کرسر کیمکل کی معلومات اور تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تاجروں ، ہینڈلرز ، ایجنٹوں اور دیگر سہولت کاروں کے لیے بھی پری کرسر کیمیکلز کی تربیت اور معلوماتی سیشن کا اہتمام کیا جائے تو ہم آپ کے مشکور ہوں گے۔ایف پی سی سی آئی اس حوالے سے بین الاقوامی تنظیموں، حکومت پاکستان، کسٹم اور اے این ایف کے ساتھ رابطے کا خیرمقدم کرے گی اور ہر ممکن تعاون اور مدد فراہم کریگا۔

ایف پی سی سی آئی نے متعدد ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور کاروباری معاملات کی ترویج کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ اب ہمارے یہاں امن و امان کی بہتر صورتحال ہے اور سرحد پار سے تجارت کے طریقہ کار قابل اطمینان ہیں۔ ہم قانونی طریقے سے تجارت کرنے والے تاجروں کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ یہی وقت ہے کہ ہم سب مل کر پاکستان میں معیشت کی ترقی میں مشترکہ کوششیں کریں۔

پورٹ کنٹرول یونٹ اینٹی نارکوٹکس فورس کے انچارج محمد ایوب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم اپنے مینڈیٹ کے مطابق خدمات انجام دیتے ہیں جس میں منشیات ، نشہ آور اشیا ، اور پری کرسر کیمیکلز سے متعلق تمام جرائم کی تفتیش اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔ نشہ آور اشیا اور قدرتی منشیات کی بڑی مقدار پاکستان کے راستے گزرتی ہے۔ ہمارے پاس جیویانی سے کراچی تک ایک ہزار کلو میٹر لمبا ساحل ہے۔

ہوائی اڈے ، بندرگاہ اور اور رابطہ سڑکیں بھی ہیں۔ ہم اتنے وسیع علاقے میں منشیات کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ تاجر کبھی بھی منشیات لے جانے میں شامل نہیں ہوتے ہیں لیکن جب وہ دوسروں کو بغیر کسی احتیاط کے کیریئر کی سہولیات کی پیش کش کرتے ہیں تو ان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم تاجروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ صرف قابل اعتماد لوگوں کے ساتھ کام کریں۔

ہم صرف 1 سے 5 فیصد مشکوک کنٹینروں کی فزیکل جانچ کرتے ہیں اور ہم نے ہولڈنگ کی مدت کو کم سے کم کردیا ہے کوئی بھی اصل کی طرح دوبارہ پیکنگ نہیں کرسکتا، لیکن ہم تاجروں کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنی ٹیم لاکر سامان دوبار پیک کرلیں۔سنگل ونڈو کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں محمد ایوب نے کہا کہ منشیات ایک بین الاقوامی جرم ہے ، ایف بی آر، کسٹم، کوسٹ گارڈز ، اے این ایف اور دیگر محکمے اپنے اختیارات کے تحت کام کر رہے ہیں ، ہمارے پاس صرف 4 ٹرمینلز پر کنٹینر روکنے اور چھوڑنے کی محدود رسائی ہے۔

ہمیں بی ایل، انوائس، یا دیگر دستاویزات موصول نہیں ہوتی ہیں۔ اور کسٹم ہمیں WeBOC سسٹم تک رسائی کی اجازت دینے سے انکار کرتا ہے۔شبیر حسن منشا کنوینر ایف پی سی سی آئی کی قائمہ کمیٹی برائے کسٹمز نے ایک نکتہ یہ اٹھایا کہ کنٹرول شدہ کیمیکلز کا اندراج آئی فارم اور ای فارم میں ہونا چاہیے اور تاجر کو اس کا پہلے سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہئے اس طرح کنٹرول شدہ کیمیکلز کی غیر قانونی درآمد / برآمد کو روکا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کراچی کے نوجوانوں میں منشیات بالخصوص آئس کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا۔صدر کراچی کسٹم ایجنٹس ایسوسی ایشن (کے سی اے ای) نے شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ کنٹینرز کی جانچ کے دوران نقصانات کو کم کرنے کے لیے آگاہی مہم اس وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔