ایل این جی پر میڈیا کا ایک حصہ دانستہ ایک تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں، جو حقیقت کے برعکس ہے ،ندیم بابر

ایک اچھا صحافی اگر چیزوں کا معروضی تجزیہ نہ کرے تو اس کی اہمیت کم ہوتی جائے گی، معاون خصوصی کی میڈیا سے گفتگو

بدھ 25 نومبر 2020 18:32

ایل این جی پر میڈیا کا ایک حصہ دانستہ ایک تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں، ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 نومبر2020ء) وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا ہے کہ ایل این جی پر میڈیا کا ایک حصہ دانستہ طور پر ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو حقیقت کے برعکس ہے،ایک اچھا صحافی اگر چیزوں کا معروضی تجزیہ نہ کرے تو اس کی اہمیت کم ہوتی جائے گی۔وفاقی وزیر اطلاعا ت ونشریات سینیٹر شبلی فراز نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایل این جی کے معاملے پر میڈیا میں بہت پروگرام ہو رہے ہیں لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کے حوالے آپ کی وساطت سے عوام کو آگاہ کریں کہ حکومت کیا کر رہی ہے کیونکہ بحیثیت جمہوری حکومت ہم جوابدہ ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ایل این جی کے شعبے اور پیٹرولیم کے حوالے سے آپ کے جو بھی سوالات ہیں، تو وزیر یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، آپ ان سے یہ سوالات پوچھ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ پچھلے تین چار ہفتے میں ایل این جی پر بہت سارے پروگرام کیے گئے ہیں اور کچھ پروگرام ہر میں بھی گیا، عمر ایوب صاحب بھی گئے لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جواب دینے کے باوجود بار بار دہرائی جا رہی ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ان چیزوں میں دانستہ طور پر ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو حقیقت کے برعکس ہے خصوصاً ایک چینل پر ایک اینکر جواب ملنے کے باوجود محض ایک سلیکٹڈ ڈیٹا کی بنیاد پر ایک ہی چیز کو بار بار دہراتے ہیں اور تصویر کشی کی کوشش کرتے ہیں۔وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ وہ ایک اچھے صحافی ہیں لیکن دانستہ یا غیردانستہ سلیکٹڈ ڈیٹا لے کر ایک تاثر دے رہے ہیں اور ایک تاثر کے لیے آلہ کار بن رہے ہیں، ایک اچھا صحافی اگر چیزوں کا معروضی تجزیہ نہ کرے تو اس کی اہمیت کم ہوتی جائے گی۔

ندیم بابر نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ کہ آپ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ پچھلی حکومت میں جب پاکستان میں ایل این جی متعارف کرائی گئی تو اسے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت گیس کے بجائے پیٹرولیم پراڈکٹ قرار دے دیا گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اوگرا گیس کی قیمت کا تعین کرتا ہے تو وہ ایل این جی کو اس کو شامل نہیں کر سکتا۔ انہوکںنے کہاکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ایل این جی لے کر آتے ہیں جو مقامی گیس سے مہنگی ہے تو جب تک ہم اس ایل این جی کی قیمت وصول نہ کر پائیں اور ایسے خریدار جو پوری قیمت دینے کو تیار ہوں ہمارے پاس موجود نہ ہوں، اس وقت ہم انہیں ایل این جی نہیں بیچ سکتے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ اس وقت ایل این جی کی قیمت 1100 روپے فی ملین بی بی ٹی یو بنتی ہے لیکن یہی اگر مقامی گیس ہو تو اس کی اسط قیمت اس سے آدھی ہے لہٰذا پچھلی حکومت نے جو قانون بنایا اس کا ایک خاص مطلب ہے جو ہمارے اینکر صاحبان خصوصاً جن کا میں ذکر کر رہا تھا، وہ اس چیز کو جانتے بوجھتے نظرانداز کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ اینکر اس ایل این جی کو گاجر مولی سمجھ رہے ہیں کہ میں جا کر بازار سے لے آؤں اور پرسوں میں کسی کو بیچ دوں گا، جو خریدار دگنی قیمت دینے کو تیار ہیں، میں اسی کو بیچ سکتا ہوں، میں اگر ایل این جی فالتو لے آؤں اور لوگ وہ قیمت دینے کو تیار نہ ہوں تو کیا میں اس ایل این جی کو ہوا میں چھوڑوں۔

انہوںنے کہاکہ ایل این جی کا اک کارگو ڈھائی کروڑ ڈالر کی ہے، اگر میرے پاس ایل این جی کے خریداروں کے کنفرم آرڈر نہیں ہیں تو میں ایل این جی لا کر کروں گا کیا ۔ندیم بابر نے کہا کہ پچھلی حکومت نے 800ملین کیوبک فٹ لانگ ٹرم کنتریکٹ پر لی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے ایل این جی آج لینی ہے تو جب میں پہلے 800 بیچ نہیں لوں گا، میں اگر کوئی اور خریدتا ہوں جو اس 800 سے اوپر ہے تو میں پھر اس مخمصے میں ہوں کہ میں اس فالتو ایل این جی کا کیا کروں۔

انہوںنے کہاکہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے ستمبر 2018 سے اس مہینے کے آخر تک ان 27مہینوں میں 35 کارگو ہم نے منگوائے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان 27 مہینوں میں سے 9 مہینے ایسے تھے کہ جب ہماری ایل این جی کی کٴْل فروخت 800 یا اس سے تھوڑی کم تھی، اگر میں فالتو ایل این جی لے آؤں تو میں ان ایک تہائی مہینوں میں کیا کروں گا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا میں 1100 کی منگوا کر ڈیڑھ سو کی بیچوں، میں کیا کروں اس کا، گردشی قرضے پیدا کروں، ان دو چیزوں کے بعد پچھلی حکومت نے قانوناً میرے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا، ان دو چیزوں کو تناظر میں رکھیں اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے نیا معاہدے پر دستخط کیوں نہیں کیے، قیمتیں تو بہت گر گئی تھیں، آپ پچھلی حکقومت کو مہنگی ایل این جی لانے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو آپ نے کیا کیا ۔

انہوںنے کہاکہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ ہم نے کیا کیا ہے، یہ 35کارگو جو ستمبر 2018 سے لے کر نومبر 2020 تک ہم لے کر آئے ان کی اوسط قیمت 10.4فیصد آف برنٹ ہے، اب آپ اس کا خود موازنہ کر لیں کہ جو ہم طویل المدتی معاہدے کے تحت ہم خرید رہے ہیں، قطر کا معاہدہ 13.37فیصد پر ہے، یہ حقائق ہیں، تیز بولنے یا ڈھیر سارے نمبر جلدی سے کہہ دینے سے حقیقت نہیں بدلتی، کنفیوژن تو پیدا ہو سکتی ہے، شاید ایک تاثر بھی پیدا ہو جائے، کچھ لوگ شاید اس پر یقین بھی کرنا شروع کردیں لیکن حقائق نہیں بدلتے۔

انہوںنے کہاکہ پھر یہ سوال اٹھایا گیا کہ آپ نے دسمبر میں بہت مہنگے کارگو لے لیے، ابھی دسمبر شروع نہیں اور اگر میں اس کے شامل بھی کر لوں تو نمبر 11.3فیصد آجاتا ہے، میں پھر بھی ان معاہدوں سے 20فیصد سستا ہوں۔معاون خصوصی نے کہا کہ ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اگر گرمیوں میں ایل این جی اتنی سستی تھی تو آپ نے ڈھیر ساری کیوں نہیں خرید لی تو اس کا آسان جواب ہے کہ جب گرمیوں میں قیمت برینٹ کا 10فیصد چل رہی تھی تو یا تو ہم سمجھتے ہیں کہ بیچنے والے احمق ہیں کہ ان کو یہ معلوم نہیں کہ سردیوں میں قیمت بڑھ جاتی ہے یا ہم اتنے ناسمجھ ہیں۔

انہوںنے کہاکہ پچھلے 10سال کا ڈیٹا اٹھا کر دیکھ لیں، ٹرینڈ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ سال کے کچھ مہینوں میں قیمت کم ہوتی ہے اور کچھ میں زیادہ ہوتی ہے، یہ ایک قدرتی امر ہے لہٰذا یہ تاثر درست نہیں ہے۔ندیم بابر نے کہا کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پچھلے حکومت نے تو دو ٹرمینل لگا دیے اس حکومت نئے ابھی تک کوئی ٹرمینل نہیں لگایا تو کیوں نہیں لگایا، جو دو ٹرمینل لگے ہوئے ہیں ان کی 100فیصد استعداد کی حکومت نے گارنٹی دی ہوئی ہے اور روزانہ کے 5لاکھ ڈالر استعداد کی مد میں مختص رقم دینی پڑتی ہے، چاہے وہ چلے یا نہ چلے، یعنی سال کے 17کروڑ ڈالر دینے پڑتے ہیں، پھر چاہے وہ جتنا بھی چلیں اور ٹرمینل پورا سال فٴْل نہیں چلتے لہٰذا اگر ٹرمینل فٴْل نہیں چلتے کہ حکومت دو تین اور ٹرمینل اسی طرز پر لگا دے اس کا مطلب ہم حکومت پر مزید معاشی بوجھ بڑھا دیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس حکومت نے نجی شعبے کو کہا کہ جو ٹرمینل لگانا چاہتا ہے وہ لگائے، حکومت ان سے اس سلسلے میں کوئی وعدہ نہیں کرے گی ، حکومت اس کو ترسیل کی صلاحیت فراہم کرے گی تاکہ وہ خود اپنیہ ایل این جی لائیں اور خود بیچیں۔ انہوںنے کہاکہ اس طرز پر دو کمپنیاں بالکل اسٹیج پر پہنچ چکی ہیں، ایک کمپنی نے کہا ہے کہ وہ جنوری میں تعمیرات شروع کررہے ہیں اور دوسری اس سے چند ماہ بعد شروع کردے گی۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ اس حکومت نے کہا کہ ہم ٹرمینل مزید لگوانا چاہتے ہیں، ہم بطور حکومت یہ رسک نہیں لیں گے کہ روزانہ 5لاکھ ڈالر دیتے رہیں اور وہ کتنا استعمال ہو رہا ہے اس کا رسک بھی ہم اٹھائیں۔انہوں نے کہا کہ ایک اور سوال یہ کیا جاتا ہے کہ کراچی الیکٹرک کو گرمیوں میں تیل نہیں ملا یا اس کو ایل این جی دے دی گئی، یہ کیوں ہوا ، آپ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ کراچی الیکٹرک کا کئی سالوں سے اس حکومت سے پہلے سے مسئلہ چل رہا ہے، ان کے بجلی اور گیس کے کنٹریکٹ بہت عرصے سے ایکسپائر ہو چکے ہیں اور کراچی کو بھی ہر ممکن حد تک سپورٹ دے رہے ہیں یونکہ یہاں کے باسی بھی پاکستان کے شہری ہیں۔

انہوںنے کہاکہ جب گرمیوں انہیں ایندھن کی کمی ہوئی، تو ہم نے انہیں ایل این جی بھی دی حالانکہ ہمارا ان سے ایل این جی کا کوئی معاہدہ نہیں تھا، پھر یہ کہا جاتا کہ ان کو تیل نہیں لاے دیا گیا تو حکومت کی ان کو تیل دینے کی کوئی ذمے داری نہیں ہے، وہ کسی کے ذریعے بھی تیل لے سکتے ہیں، حکومت سے انہوں نے کبھی بھی تیل نہیں لیا۔ندیم بابر نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس سال فیول آئل پر آر ایف او پر جنریشن کیوں کی گئی تو دراصل دو سال پہلے بجلی کی کل پیداوار کا 21فیصد آر ایف او پر تھا، اس سال 11مہینے ہو گئے ہیں، کٴْل پیداوار کا 3.9فیصد فرنس آئل پر ہے اور اب اسے صرف ایمرجنسی اوقات میں استعمال کیا جاتا ہے۔

انہوںنے کہاکہ پچھلے ہفتے ہم نے روس سے مفاہمتی یادداشت کو ازسرنو مرتب کرتے ہوئے دستخط کیے ہیں تاکہ نارتھ ساؤتھ پائپ لائن بنا سکیں، ہم نے اس پائپ لائن کا حجم بھی بڑھا دیا ہے اور اب یہ 1.6 بی سی ایف گیس لے کر چلے گا، ہمیں امید ہے کہ فروری مارچ میں اس پر کام شروع کردیں گے۔معاون خصوصی نے دعویٰ کیا کہ اگلے دو تین سالوں میں ہم پائپ لائن کے شعبے میں اہم اصلاحات لا رہے ہیں اور کابینہ نے پیٹرولیم ڈویژن کو یہی ہدایت دی ہے کہ ایک مکمل اصلاحات پروگرام لے کر آئیں۔