ملکی زراعت کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے جدید رحجانات اپنانے کے ساتھ ساتھ انڈسٹری، اکیڈیمیا اور کسانوں کے باہمی اشتراک سے ایسی حکمت عملی اپنانا ہو گی جس کے ذریعے ملکی پیداواریت کا حجم کئی گنا بڑھایا جا سکے

ان باتوں کا اظہار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف تنویر نے شعبہ حشریات میں منعقدہ انڈسٹری یونیورسٹی مشترکہ تعاون کے حوالے سے کراپ لائف کے ماہرین و زرعی سائنسدانوں کے ایک اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب کے دوران کیا

منگل 5 جنوری 2021 17:21

ملکی زراعت کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے جدید رحجانات اپنانے کے ساتھ ..
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 جنوری2021ء)   ملکی زراعت کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے جدید رحجانات اپنانے کے ساتھ ساتھ انڈسٹری، اکیڈیمیا اور کسانوں کے باہمی اشتراک سے ایسی حکمت عملی اپنانا ہو گی جس کے ذریعے ملکی پیداواریت کا حجم کئی گنا بڑھایا جا سکے۔ ان باتوں کا اظہار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف تنویر نے شعبہ حشریات میں منعقدہ انڈسٹری یونیورسٹی مشترکہ تعاون کے حوالے سے کراپ لائف کے ماہرین و زرعی سائنسدانوں کے ایک اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ زراعت کے مسائل کے حل کے لئے یونیورسٹی میں بہترین تحقیق کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ فی ایکڑ پیداوار کو بڑھاتے ہوئے غربت کے خاتمے میں کمی کے ساتھ ساتھ فوڈ سیکورٹی کے اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

انہوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فی ایکڑ پیداوار روایتی طریقہ کاشت، پوسٹ ہارویسٹ نقصانات، غیرتصدیق شدہ بیج اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے جس کے لئے تمام شعبہ جات کو مربوط کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی۔

چیئرمین انٹومالوجی ڈاکٹر سہیل احمد نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں فنڈنگ بڑھانے کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کو جدید رجحانات سے روشناس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد جلال عارف نے کہا کہ انڈسٹری اکیڈیمیا تعلقات کو مضبوط کر کے زراعت کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 80ء کی دہائی میں دوا ساز کمپنیاں کسانوں کو جدید زرعی رحجانات اور فصل کی بہتر نگہداشت کے متعلق آگاہی فراہم کر رہی تھیں تاہم گزشتہ ایک دہائی سے دواساز کمپنیوں نے یہ عمل روک دیا ہے جس کو دوبارہ بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف مسائل کی وجہ سے زراعت ایک منافع بخش کاروبار نہیں رہا جس کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ 60ء کی دہائی میں انٹی گریٹڈ پسٹ مینجمنٹ(آئی پی ایم) کو قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا تاکہ ملک میں محفوظ ادویات کے فروغ کے ساتھ ساتھ ماحول دوست زراعت کو فروغ دیا جا سکے۔ کراپ لائف پاکستان ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر راشد احمد نے کہا کہ وہ بہترین ادویات کی تیاری کے ساتھ کسانوں کو درپیش چیلنجز کے حل کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے بعض علاقوں میں مکئی، چاول اور کپاس کو کافی نقصان پہنچا تاہم پاکستان کی زراعت میں بہتری کے لئے کاشتکاروں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔ میٹنگ میں زرعی ماہرین سرور راہی، عامر بشیر، پروفیسر ڈاکٹر وسیم اکرم، پروفیسر ڈاکٹر شہزاد بسرا، پروفیسر ڈاکٹرمحمد ارشد، ڈاکٹر دلدار گوگی اور دیگر نے شرکت کی۔