جنوبی ایشیا کے مسلم ایل جی بی ٹی کا سہارا ’سوشل میڈیا‘

DW ڈی ڈبلیو منگل 19 جنوری 2021 19:40

جنوبی ایشیا کے مسلم ایل جی بی ٹی کا سہارا ’سوشل میڈیا‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جنوری 2021ء) شہامت الدین مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں بحیثیت ایک ہم جنس پرست مرد انتہائی خوف میں زندگی بسر کر رہے تھے تاہم حال ہی میں وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں امریکا منتقل ہو گئے۔ وہ بنگلہ دیش میں ایل جی بی ٹی برادری کے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد کے متعدد واقعات دیکھنے کے بعد انتہائی خوف اور صدمے میں تھے۔

2016ء میں ان کی برادری کے زولحاز منان کے بہیمانہ قتل کا واقعہ ان کے لیے ایک دھچکے کا باعث بنا۔ منان اور اُس کا ایک دوست اور ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے حقوق کے لیے سرگرم محبوب ربی ٹونوئی، دونوں کو منان کے اپارٹمنٹ کے اندر گھُس کر خنجر بردار مردوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آخر کار بنگلہ دیش میں القاعدہ نے ان ہلاکتوں کی ذمہ دار قبول کر لی تھی۔

(جاری ہے)

بنگلہ دیش کے پہلے اور واحد ایل جی بی ٹی میگزین 'روپبان‘ کی اشاعت کا کام منان نے ہی شروع کیا تھا۔

منان اور اُس کے دوست کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے بعد خوف کے شکار ایل جی بی ٹی باشندے یا تو چھُپ گئے یا فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ انتہا پسند گروپوں نے ان کے ناموں کی 'ہٹ لسٹ‘ شائع کی تھی۔ بہت سے 'ایکٹیوسٹس‘ سوشل میڈیا پر سے اپنے نشانات مٹا چکے ہیں۔

بنگلہ دیشی قانون کے تحت ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے۔

’’کوئیر مسلم پراجیکٹ‘‘

ایل جی بی ٹی کے حقوق کے لیے منان کی کوششوں نے شہامت الدین کو بہت متاثر کیا۔ اُسے بھی کسی ایسے پلیٹ فارم کی تلاش تھی جس پر وہ آزادانہ طور پر اظہار خیال کر سکے۔ آخر کار اُسے جنوبی ایشیائی مسلم ایل جی بی ٹی افراد کا ایک آن لائن گروپ مل گیا جس کا نام ہے''کوئیر مسلم پراجیکٹ‘‘۔

اس کے بارے میں شہامت الدین نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''کوئیر پراجیکٹ کا حصہ بننے کا مطلب ہے، زولحاز منان میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ یہ تم ہی ہو جس کی وجہ سے میں یہ جان پایا کہ خدا نے ہمیں بھوری جلد والا مسلمان کیوں بنایا۔‘‘

''کوئیر مسلم پراجیکٹ‘‘ دراصل جنوبی ایشیائی ایل جی بی ٹی کی گواہیوں کی ایک آن لائن سیریز ہے۔

اس کا آغاز 2017ء میں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن کی یونیورسٹی کے عمرانیات کے ایک سابق اسکالر رفیع العالم نے رکھی تھی۔ تب وہ وہاں تعلیم حاصل کر رہے تھے وہ بھی ''انٹر سیکشن آف ریلیجن اینڈ سیکچوئیلیٹی‘‘ میں۔ پی ایچ ڈی کے پروگرام کو منقطع کر کے وہ اس پلیٹ فارم کو قائم کرنے کے لیے بھارت آ گئے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسلامی الہیات کے مرکزی دھارے میں صنف اور مذاہب کے بارے میں بات کرنے کے لیے بہت محدود جگہ ہے۔

لہٰذا، میں ایک ایسی جگہ چاہتا تھا جہاں پر یہ مسلمان اکٹھے ہوسکیں اور عقیدے کے پیرائے میں رہتے ہوئے خیالات کا تبادلہ کرسکیں۔‘‘

یہ جگہ سوشل میڈیا میں محدود نہیں ہے۔ یہاں ورکشاپس، مشاورتی میٹنگ سب موجود ہیں، جہاں اس کمیونٹی کے ممبر اپنے تجربات کا تبادلہ ایک دوسرے کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ کورونا وبا پھوٹنے سے پہلے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں کچھ ایسے ایونٹس کا انعقاد بھی ہوا۔

مگر اب دنیا بھر سے یہ افراد ویڈیو کانفرنس کے ذریعے تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔

ایک ایسی جگہ جہاں سے میں تعلق رکھتا ہوں

کبیر نئی دہلی یونیورسٹی کا طالبعلم ہے۔ ویڈیو کانفرنس پر ہونے والی ایسی ہی ایک میٹنگ میں شرکت کر کے اُس کی آنکھیں کُھل گئیں۔ ''ہم جنس پرستی ایک گناہ ہے۔ یہ سنتے سنتے میں بڑا ہوا۔ میں نماز پڑھنے مسجد جایا کرتا تھا۔

وہاں دوسرے لڑکوں کی طرف رغبت میرے قابو میں نہیں تھی۔ یہ میرے لیے شدید جرم کا احساس تھا جس کی وجہ سے میں بالکل تنہا ہو گیا۔‘‘

کبیر کا کہنا ہے کہ اُس کے اندر ایک ہیجان ایک کشمکش پیدا ہو گئی جس سے بہت نقصان پہنچا۔ وہ بس پیچھے ہٹتا چلا گیا اور زندگی میں کسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اُس نے کہا، ''رمضان کے دوران میں مسلم کمیونٹی کے پروگراموں میں شامل ہوا۔

میں خوفزدہ تھا مگر کسی طرح میں نے اپنے اندر طاقت پیدا کی۔ یہ مجھ جیسوں کے لیے اپنی صلاحیتوں کے بارے میں ایک انکشاف تھا۔‘‘

برادری کی طرف سے ہمت افزائی نے کبیر کو اپنے والدین سے قریب کر دیا جو معتدل مسلمان تھے۔ اُس نے اپنی والدہ کو اپنے بارے میں بتایا جس کے بعد وہ اپنے والدین کی طرف سے ایک پراسرار رد عمل کی توقع کر رہا تھا۔

اُس کی والدہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا۔ کبیر کا کہنا ہے کہ وہ اب اپنے گھر اور معاشرے میں خود کو تسلیم ہوتا محسوس کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے، ''میں اب اپنے مذہب سے متصادم نہیں ہوں۔ قدامت پسند افراد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ تنوع عقیدے کو مضبوط بناتا ہے۔‘‘

قبولیت میں ابھی وقت لگے گا

کبیر نے کہا، ''مجھے اپنے آپ کو سمجھنے میں دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے لہٰذا میں توقع نہیں کرتا ہوں کہ ہر ایک اسے آسانی سے سمجھے گا۔

یہ ایک عمل ہے۔‘‘

کوئیر مسلم پراجیکٹ سے تعلق رکھنے والے رحمان نے کہا کہ لوگوں کی طاقتور ذاتی کہانیاں بانٹنے سے شعور اجاگر ہوتا ہے۔ بعض اوقات خاندان والے جب سوشل میڈیا پر پوسٹس دیکھتے ہیں تو مفاہمت کے رستے کی تلاش کرتے ہیں۔

تاہم اس پراجیکٹ کو قدامت پسند حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے اور اسے سوشل میڈیا پر باقاعدگی سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔

رحمان کا کہنا ہے، ''حال ہی میں، ایک قدامت پسند مسلم گروہ نے ہم جنس پرستی کے ساتھ سرعام نفرت کا اظہار کیا۔ کچھ لوگ ہمیں مذہب کی توہین کے مرتکب اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ معمول ہے یہ ہمیں سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔‘‘

اس گروپ کے فیس بک پر 15 ہزار ارکان اور انسٹاگرام پر قریب 25 ہزار فالوورز ہیں۔

راہن ویسلی (ک م / ا ب ا)