سائنسدان اورزرعی ماہرین معیاری بیج تیار کرکے زرمبادلہ کی مد میں اربوں روپے کی بچت کرسکتے ہیں، ڈاکٹر آصف تنویر

منگل 23 فروری 2021 13:33

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 فروری2021ء) جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف تنویر نے کہا کہ پاکستان دنیا کے بہترین موسموں اور شاندار و سازگار فضائی صورتحال کا حامل زرعی ملک ہے مگر یہ امر باعث تشویش ہے کہ اس کے باوجود ہم 90 فیصد تک سبزیوں کے بیج درآمد کر رہے ہیں جولمحہ فکریہ ہے تاہم ہمارے سائنسدان اورزرعی ماہرین معیاری بیج تیار کرکے زرمبادلہ کی مد میں اربوں روپے کی بچت کرسکتے ہیں۔

ای کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم فصلوں کی برادشت کے عمل کے دوران ہونیوالے نقصانات میں اپنی زراعت کی پیداوار کا 40 فیصد حصہ ضائع کر رہے ہیں جبکہ ملک میں فی ایکڑ پیداوار ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فوڈ سکیورٹی کے حصول اور باقی دنیا کے ساتھ مقابلہ جاتی بنیادوں پر اپنے زرعی پیداواریت کا حجم بڑھانے کیلئے جدید زرعی طریقوں کو فروغ دینا ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی 2050 تک دوگنا ہو جائے گی جبکہ اس تناظر میں اربنائزیشن کی وجہ سے سمٹتے ہوئے زرعی رقبہ جات کے علاوہ فصلات کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے گریز کے ساتھ ساتھ پوسٹ ہارویسٹ نقصانات نے فوڈ سکیورٹی کے خطرات کو اور بھی گہرا کر دیا ہے جس پر قابو پانے کیلئے ملکی تحقیق و ترقی کے تمام ادارہ جات کو مل کر مربوط حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی تاکہ ملکی زرعی پیداواریت کا حجم ترقی یافتہ ممالک کے برابر لایا جا سکے۔

اس موقع پر ڈین فیکلٹی آف ایگریکلچر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اختر نے کہا کہ زراعت کا شعبہ مختلف پیداواری چیلنجوں کا مقابلہ دستیاب محدود وسائل سے کر رہا ہے جن میں کم پیداواریت، روپے کی قدر میں روزافزوں کمی، پانی کی قلت، موسمیاتی تبدیلی، زرعی مداخل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور کسان کو مناسب اجرت کی عدم فراہمی کے ساتھ ساتھ پوسٹ ہارویسٹ نقصانات اور دیگر شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محققین، زرعی ماہرین، پالیسی سازوں، کاشتکاری برادری اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جامع و مربوط کاوشیں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹیکلچر سائنسز پروفیسر امان اللہ ملک نے کہا کہ پوسٹ ہارویسٹ نقصانات پر قابو پانے کی صورت میں نہ صرف فی ایکڑ پیداوار خاطرخواہ بڑھائی جا سکتی ہے بلکہ فوڈ سکیورٹی کے چیلنجز کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ برآمدات کا حجم بھی کئی گنا بہتر کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹیکلچر سائنسز باغبانی و سبزیات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ پھولوں کی کاشت اور لینڈسکیپنگ کے شعبہ جات میں نئی جدتوں کی حامل تعلیمی پیش رفت سے طلبا کو فیض یاب کر رہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے گریجوایٹس کی ملک بھر اور بیرون ملک بہت زیادہ مانگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ باغبانی کی پیداوار، اس کی ہینڈلنگ، پروسیسنگ اور سٹوریج کیلئے ارزاں نرخوں پر قابل عمل زرعی ٹیکنالوجی پر مبنی پیکجز باغبانوں اور کسانوں کو فراہم کرنے کیلئے عملی کاوشیں بروئے کار لا رہے ہیں تاکہ ان کے ذریعے نچلی سطح پر غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ غذائی کمی جیسے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔