کس طرح فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی دیہی پنجاب کے پھلوں کے کاشتکاروں کو تباہ کر رہی ہے

پیر 26 مئی 2025 18:03

کس طرح فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی دیہی پنجاب کے پھلوں کے کاشتکاروں کو تباہ ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 26 مئی2025ء) پنجاب کے باغات میں، جہاں نسل در نسل پھلوں کی پیداوار ہی گزر بسر کا ذریعہ رہی ہے، وہاں وفاقی ٹیکس محض کوئی دور کا مالیاتی مسئلہ نہیں — بلکہ یہ روزانہ کی بنیاد پر روزگار پر پڑنے والا کاری وار بن چکا ہے۔ جو معاملہ باقاعدہ پیک شدہ جوس کی صنعت پر 20 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور اس پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگنے سے شروع ہوا، وہ اب ایسی سمت میں بڑھ چکا ہے جس کا شاید کسی پالیسی ساز نے اندازہ نہیں لگایا تھا۔

جوس کمپنیاں — جو کبھی پھلوں کے گودے کی سب سے بڑی خریدار اور اضافی پیداوار کے لیے ایک محفوظ سہارا تھیں — اب 42 فیصد ٹیکس بوجھ تلے دب چکی ہیں۔ دیہی پنجاب کے لیے اب یہ مسئلہ صرف جوس کا نہیں رہا؛ یہ بقا کا سوال بن چکا ہے۔

(جاری ہے)



جوس کی باقاعدہ صنعت شدید گراوٹ کا شکار ہے؛ فروخت 45 فیصد کم ہو کر 72 ارب روپے سے صرف 42 ارب پر آ گئی ہے۔ اس کا اثر صرف شہری سپر مارکیٹوں کی شیلف تک محدود نہیں، بلکہ دیہات میں وہ کسان بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں جو کبھی آم، کینو، اور امرود کی بڑی مقدار پروسیسرز کو فروخت کرتے تھے — اب وہ اپنی پیداوار کو کھلے عام سڑتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

خریداری تقریباً رک چکی ہے۔ صرف آم کی خریداری 31 ہزار ٹن سے گھٹ کر 20 ہزار ٹن سے کچھ زیادہ رہ گئی ہے۔ ایسے صوبے میں جہاں کٹائی کے بعد کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، یہ گراوٹ تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ پھل انتظار نہیں کرتا — وہ خراب ہوتا ہے، گلتا ہے، اور اس کے ساتھ کسان کی جائز کمائی کی آخری امید بھی ختم ہو جاتی ہے۔

یہ ایک ایسا سپلائی چین تھا جو چل رہا تھا۔

جوس بنانے والی کمپنیاں نہ صرف مستقل طلب رکھتی تھیں، بلکہ انہوں نے کسانوں کو بہتر طریقہ کار سکھانے، منصفانہ قیمتیں دینے، اور مارکیٹ گرنے کے وقت سہارا دینے جیسے اقدامات میں سرمایہ کاری بھی کی تھی۔ اب یہ رشتہ ٹوٹ رہا ہے۔ موجودہ ٹیکس نظام کے تحت فیکٹریاں مہینوں سے پیداوار معطل کر رہی ہیں۔ کسان بے یار و مددگار ہو چکے ہیں — یا تو وہ استحصال کرنے والے آڑھتیوں کے ہاتھوں سستے داموں بیچنے پر مجبور ہیں، یا پھر سیزن کی ساری محنت زمین میں دفن کر رہے ہیں۔



دوسری جانب، رسمی شعبے کے زوال نے غیر رسمی اور غیر منظم مشروبات کے بازار کو فروغ دیا ہے — سستے، غیر محفوظ، اور بغیر کسی ٹیکس کے۔ یہ چھوٹی، ناپائیدار کمپنیاں مارکیٹ میں مصنوعی اور مضر مشروبات سے شیلف بھر رہی ہیں، جس سے صارفین غذائیت سے بھرپور اور محفوظ جوس کی جانب سے منہ موڑ رہے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف عوامی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، بلکہ حکومت کو بھی اُس محصول سے محروم کر رہی ہے جسے بڑھانے کے لیے یہ ٹیکس لگایا گیا تھا۔



مگر یہ صرف ایک معاشی غلطی نہیں — بلکہ دیہی زندگی کا ایک خاموش بحران ہے۔ پنجاب کے دیہات میں، جہاں مستحکم مارکیٹ تک رسائی ہی گھریلو آمدن کا تعین کرتی ہے، جوس انڈسٹری کا غائب ہو جانا محض ایک عددی کمی نہیں، بلکہ دیہی استحکام کی چپ چاپ شکست ہے۔ یہ ٹیکس پالیسی، جو محصولات بڑھانے کے لیے بنائی گئی تھی، اب باقاعدہ شعبے کو نچوڑ رہی ہے اور مارکیٹ کو ایسے ہاتھوں میں دے رہی ہے جن کا کوئی حساب کتاب نہیں۔



اور اس سب کے باوجود، صنعت بڑے پیمانے پر اصلاحات نہیں مانگ رہی — وہ صرف فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں معمولی سی 5 فیصد کمی چاہتی ہے۔ بس اتنی کہ فیکٹریاں دوبارہ کھل سکیں، خریداری کا عمل بحال ہو، اور ہزاروں کسانوں کو پھر سے امید ملے جن کے پھلوں کے لیے اس سیزن میں کوئی ٹرک آیا ہی نہیں۔ بصورتِ دیگر، پنجاب کے کھیت شاید پھل دینا نہ چھوڑیں، لیکن جب خریدار ہی نہ ہوں، تو صرف باغات ہی نہیں — زندگیاں بھی مرجھا جاتی ہیں۔

متعلقہ عنوان :