
کس طرح فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی دیہی پنجاب کے پھلوں کے کاشتکاروں کو تباہ کر رہی ہے
پیر 26 مئی 2025 18:03

(جاری ہے)
جوس کی باقاعدہ صنعت شدید گراوٹ کا شکار ہے؛ فروخت 45 فیصد کم ہو کر 72 ارب روپے سے صرف 42 ارب پر آ گئی ہے۔ اس کا اثر صرف شہری سپر مارکیٹوں کی شیلف تک محدود نہیں، بلکہ دیہات میں وہ کسان بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں جو کبھی آم، کینو، اور امرود کی بڑی مقدار پروسیسرز کو فروخت کرتے تھے — اب وہ اپنی پیداوار کو کھلے عام سڑتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
یہ ایک ایسا سپلائی چین تھا جو چل رہا تھا۔ جوس بنانے والی کمپنیاں نہ صرف مستقل طلب رکھتی تھیں، بلکہ انہوں نے کسانوں کو بہتر طریقہ کار سکھانے، منصفانہ قیمتیں دینے، اور مارکیٹ گرنے کے وقت سہارا دینے جیسے اقدامات میں سرمایہ کاری بھی کی تھی۔ اب یہ رشتہ ٹوٹ رہا ہے۔ موجودہ ٹیکس نظام کے تحت فیکٹریاں مہینوں سے پیداوار معطل کر رہی ہیں۔ کسان بے یار و مددگار ہو چکے ہیں — یا تو وہ استحصال کرنے والے آڑھتیوں کے ہاتھوں سستے داموں بیچنے پر مجبور ہیں، یا پھر سیزن کی ساری محنت زمین میں دفن کر رہے ہیں۔
دوسری جانب، رسمی شعبے کے زوال نے غیر رسمی اور غیر منظم مشروبات کے بازار کو فروغ دیا ہے — سستے، غیر محفوظ، اور بغیر کسی ٹیکس کے۔ یہ چھوٹی، ناپائیدار کمپنیاں مارکیٹ میں مصنوعی اور مضر مشروبات سے شیلف بھر رہی ہیں، جس سے صارفین غذائیت سے بھرپور اور محفوظ جوس کی جانب سے منہ موڑ رہے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف عوامی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، بلکہ حکومت کو بھی اُس محصول سے محروم کر رہی ہے جسے بڑھانے کے لیے یہ ٹیکس لگایا گیا تھا۔
مگر یہ صرف ایک معاشی غلطی نہیں — بلکہ دیہی زندگی کا ایک خاموش بحران ہے۔ پنجاب کے دیہات میں، جہاں مستحکم مارکیٹ تک رسائی ہی گھریلو آمدن کا تعین کرتی ہے، جوس انڈسٹری کا غائب ہو جانا محض ایک عددی کمی نہیں، بلکہ دیہی استحکام کی چپ چاپ شکست ہے۔ یہ ٹیکس پالیسی، جو محصولات بڑھانے کے لیے بنائی گئی تھی، اب باقاعدہ شعبے کو نچوڑ رہی ہے اور مارکیٹ کو ایسے ہاتھوں میں دے رہی ہے جن کا کوئی حساب کتاب نہیں۔
اور اس سب کے باوجود، صنعت بڑے پیمانے پر اصلاحات نہیں مانگ رہی — وہ صرف فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں معمولی سی 5 فیصد کمی چاہتی ہے۔ بس اتنی کہ فیکٹریاں دوبارہ کھل سکیں، خریداری کا عمل بحال ہو، اور ہزاروں کسانوں کو پھر سے امید ملے جن کے پھلوں کے لیے اس سیزن میں کوئی ٹرک آیا ہی نہیں۔ بصورتِ دیگر، پنجاب کے کھیت شاید پھل دینا نہ چھوڑیں، لیکن جب خریدار ہی نہ ہوں، تو صرف باغات ہی نہیں — زندگیاں بھی مرجھا جاتی ہیں۔
مزید زراعت کی خبریں
-
دھان کے کاشتکاروں کو پنیری اکھاڑتے وقت متاثرہ پودے زمین میں تلف کرنے کی ہدایت
-
پاکستان کو ٹونا مچھلی کی برآمد سے 200ملین ڈالرز آمدن متوقع
-
دھان کی کاشت کیلئے پنیری اکھاڑنے سے ایک دو روز پہلے اسے پانی لگادیں تاکہ زمین نرم ہوجائے،لیاقت علی
-
وزیر اعلیٰ پنجاب گندم سپورٹ پروگرام کے تحت صوبہ بھر کے کاشتکاروں کو گرین ٹریکٹرز کی مفت فراہمی کا عمل جاری ہے،سید عاشق حسین کرمانی
-
مچھلی اور مچھلی کی مصنوعات کی برآمدات میں اپریل کے دوران 11.57 فیصد اضافہ ہوا
-
انٹر نیشنل بکرا بچھڑا و اونٹ میلہ، لاہور کے 257کلوگرام وزنی بکرے کی پہلی پوزیشن
-
3 لاکھ روپے فی کلو فروخت ہونے والے آم کی کراچی میں بھی پیداوار شروع
-
کس طرح فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی دیہی پنجاب کے پھلوں کے کاشتکاروں کو تباہ کر رہی ہے
-
ایس ایم تنویر سرپرست اعلی فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی سربراہی میں پری بجٹ میٹنگ آف سٹینڈنگ کمیٹی برائے بحالی کاٹن صنعت(ایف پی سی سی آئی) کا اجلاس
-
دھان کے کاشتکار چاول کی فصل کو پانی کی کمی نہ آنے دیں ،ڈائریکٹر زراعت
-
پاکستان میں آم کی کاشت کا رقبہ 159000 ہیکٹر، پیداوار 1844000 ٹن سے تجاوز کرگئی
-
پنجاب آم کی مجموعی قومی پیداوار میں 70فیصد ، سندھ 29اور خیبر پختونخوا ایک فیصد شراکت دار ہے،وحید احمد
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.