نسوانی جنسی اعضاء کی قطع و برید، مصر میں سخت سزا کا نفاذ

DW ڈی ڈبلیو اتوار 2 مئی 2021 15:20

نسوانی جنسی اعضاء کی قطع و برید، مصر میں سخت سزا کا نفاذ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مئی 2021ء) مصر کی حکومت نے نسوانی جنسی اعضاء کی قطع برید یا 'فی میل جینیٹل میوٹیلیشن‘ (FGM) کی حوصلہ شکنی کے لیے سخت اقدامات کا نفاذ کر دیا ہے۔ دوسری جانب ایسا کرنے کی حوصلہ شکنی کی مہم چلانے والے کارکنوں نے ایف جی ایم کی رسم کے مکمل خاتمے پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس کا قوی امکان ہے کہ شہروں میں اس حکومتی اقدام کا مثبت ردِعمل سامنے آئے لیکن دیہات اور قصبات میں اس قانون کے احترام کا امکان کم ہے۔

نسوانی جنسی اعضاء کی قطع برید کا خاتمہ بھی ترجیح ہونا چاہیے

ایک اچھی خبر

ایف جی ایم کے خلاف بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم دا فائیو فاؤنڈیشن کے شریک بانی برینڈن وائین نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے مصر کی حکومت کے سخت سزا کے قانون کے نفاذ‌ کو ایک شاندار خبر قرار دیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے واضح کیا کہ ایسا کرنے والے خاندانوں اور قدیمی رسم میں تسلسل کے حامی خاندانوں اور مرد افراد کے لیے یقینی طور پر یہ ایک حوصلہ شکن خبر ہے۔

وائین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس افسوسناک عمل میں رکاوٹ کا پیدا ہونا حکومت کے سنجیدہ ہونے سے جڑا ہے اور پہلی مرتبہ قاہرہ حکومت نے اس قدیمی رسم کے خاتمے کے لیے انتہائی اہم قدم اٹھایا ہے۔ وائین کے مطابق اس وقت بھی طبی سیکٹر میں کام کرنے والے اہلکار اس ظالمانہ رسم میں تسلسل جاری رکھنے کی کوشش میں ہیں اور انہوں نے کھلے عام اپنی سروسز فراہم کر رکھی ہیں۔

نسوانی اعضاء کاٹنے کے خلاف مہم جاری رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم دا فائیو فاؤنڈیشن کا صدر دفتر امریکی شہر نیو یارک میں ہے۔

نسوانی ختنوں میں اضافہ، عالمی برداری میں پریشانی کا باعث

جنسی اعضاء کاٹنے پر پابندی

براعظم افریقہ کے 28 ممالک میں سے بیشتر نے ایسا کرنے پر باضابطہ پابندی عائد کر دی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے جرمانہ اور سزا بھی مقرر ہے لیکن اس کا خاتمہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

اس مناسبت سے اس رسم کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ تادیبی اقدامات کا بھرپور نفاذ نہیں ہوتا اور اس باعث نسوانی جنسی اعضاء کاٹنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

مصر میں پہلی مرتبہ ایف جی ایم کے خلاف سخت سزا کا اعلان کیا گیا ہے اور عدالت خلاف ورزی کرنے والے کو پانچ سے بیس برس تک کی سزا سنا سکتی ہے۔ مصری پارلیمنٹ نے سابق قانون میں سخت سزا کی ترمیم کا مسودہ اتوار پچیس اپریل کو منظور کیا۔

قدیم رسم کے خاتمے کا عزم

عالمی رہنما اس قدیمی رسم کے سن 2030 تک مکمل طور پر خاتمے کا عزم رکھتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس رسم پر جس طرح 30 برس قبل عمل کیا جاتا تھا، ویسا اب بھی ہو رہا ہے۔ اس قدیمی رسم پر عمل کرنے والے ملکوں میں صومالیہ، مالی، گیمبیا، گنی بساؤ، چاڈ اور سینیگال خاص طور پر نمایاں ہیں۔

ایک اور افریقی بچی نسوانی ختنے کی بھینٹ چڑھ گئی

اس تناظر میں ایف جی ایم کے خلاف بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم دا فائیو فاؤنڈیشن کے شریک بانی برینڈن وائین کا کہنا ہے کہ جن معاشروں میں یہ رسم گہری جڑیں رکھتی ہے، وہاں اس پر عمل کرنے والے پابندی کے قانون کے باوجود اسے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کے لیے ایسے قوانین کوئی معنی نہیں رکھتے۔

وائین کا کہنا ہے کہ جب تک چند ڈاکٹروں کو اس رسم میں معاونت کرنے پر طویل المدتی سزائیں نہیں دی جاتیں اور انہیں ایسا کرنے والے دوسرے افراد کے لیے مثال نہیں بنایا جاتا تب تک اس کا خاتمہ ہونا مشکل ہے۔

ع ح / ا ب ا (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)