ٹوکیو اولمپکس: فاتح کھلاڑیوں کے لیے میڈل کیسے بنائے گئے؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 25 جولائی 2021 15:00

ٹوکیو اولمپکس: فاتح کھلاڑیوں کے لیے میڈل کیسے بنائے گئے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2021ء) جاپان میں جاری اولمپک کھیلوں میں ایتھلیٹس کو دیے جانے والے تمغے لوگوں کی عطیہ کردہ الیکٹرانک مصنوعات سے حاصل کردہ دھاتوں سے بنائے گئے ہیں۔ پائیدار طرز تیاری کی یہ مثال جاپانی اختراعی سوچ کی عکاس ہے۔

جاپان میں ان دنوں اولمپک مقابلے جاری ہیں۔ مختلف مقابلوں میں پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن پر آنے والے ایتھلیٹس کو پوڈیم پر جگہ ملتی ہے اور پھر انہیں سونے، چاندی یا کانسی کے تمغے دیے جاتے ہیں، جو ان کھلاڑیوں اور ان کے ممالک کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے۔

پس پردہ 'ٹوکیو میڈل پروجیکٹ‘ سے منسلک افراد بھی کافی مطمئن ہیں، جنہوں نے اس بار دیے جانے والے تمغوں کی تیاری کے لیے ایک منفرد راستہ اختیار کیا۔

(جاری ہے)

ایک ایسا راستہ جس کی بدولت آج ہر جاپانی شہری کو یہ احساس ہے کہ دنیا بھر کے کامیاب ترین ایتھلیٹس کو دیے جانے والے ہر تمغے میں کہیں نہ کہیں کوئی چھوٹا سا حصہ اس کا بھی ہے۔

کباڑیے سے خریدے گئے کلاک میں سے پچاس ہزار ڈوئچ مارک نکل آئے

’الیکٹروڈائنامک رسی‘ سے خلائی کباڑ کی صفائی

اولمپکس میں دیے جانے والے تمغے کیسے بنائے گئے؟

ٹوکیو اولمپکس میں دیے جانے والے تمام تمغے ری سائیکل شدہ مواد سے بنائے گئے ہیں۔

اولمپکس کی منتظم کمیٹی کے ترجمان ہیتومی کامی زاوا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تمغوں کے لیے درکار دھاتوں کے لیے ایک مہم میں عوام سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اپنی پرانی الیکٹرانک مصنوعات عطیہ کریں اور جاپانی عوام نے کھل کر اس مہم میں حصہ لیا۔

اولمپک کھیلوں کے لیے سونے، چاندی اور کانسی کے تقریباً پانچ ہزار تمغے درکار تھے۔ منتظمین نے ملک گیر سطح پر تقریباﹰ دو سال پر محیط مہم میں لوگوں سے ان کے پرانے الیکٹرانک آلات مانگے۔

اس مقصد کے لیے جاپان کے نوے فیصد علاقوں میں عطیات کے باقاعدہ مراکز بنائے گئے، جہاں لوگ اپنی پرانی، ناکارہ اور کوڑا سمجھی جانے والی اشیاء جمع کرا سکتے تھے۔

اس منصوبے کے تحت جمع ہونے والے پرانے لیپ ٹاپس، ٹیلی فونز اور دیگر آلات کا مجموعی وزن لگ بھگ 80 ٹن تھا۔ غیر ضروری سامان نکلنے کے بعد اس کوڑے کرکٹ سے قریب 32 کلوگرام یا 70 پاؤنڈ سونا، 7700 پاؤنڈ چاندی اور 4850 پاؤنڈ کانسی حاصل ہوئے، جن سے ٹوکیو اولمپکس کے لیے تمغے بنائے گئے۔

جاپان اولمپک کھیلوں میں دیے جانے والے تمام میڈلز 'ری سائیکلڈ‘ دھاتوں سے بنانے والا اولین ملک تو بن گیا ہے مگر یہ خیال پرانا ہے۔ سن 2016 میں منعقدہ ریو اولمپکس میں بھی سونے اور چاندی کے تمغوں کا تیس فیصد حصہ 'ری سائیکلڈ‘ مادوں ہی سے بنایا گیا تھا۔

مستقبل کے لیے ایک مثال

آئندہ اولمپکس پیرس میں منعقد ہوں گے، جہاں سماجی سطح پر تبدیلی اور تحفظ ماحول اہم موضوعات ہیں۔

امید کی جا رہی ہے کہ جاپان کی اس کاوش کی پیرس اولمپکس میں بھی تقلید کی جائے گی۔

اس قسم کے منصوبے کم مدت تک کارآمد رہنے والی الیکٹرانک مصنوعات کی مانگ میں اضافے کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ دو برس قبل اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ سونے، چاندی اور تانبے جیسی اربوں مالیت کی کئی قیمتی دھاتیں یا تو ضائع ہو گئیں یا انہیں نذر آتش کر دیا گیا۔ اس وقت الیکٹرانک کوڑے کرکٹ کے صرف پانچ فیصد حصے کو درست طریقہ کار سے جمع کر کے ری سائیکل کیا جاتا ہے۔

ع س / م م (جان مارشل)