جاپان، دن میں دو صرف گھنٹے اسمارٹ فون استعمال کرنے کی اجازت

DW ڈی ڈبلیو اتوار 19 اکتوبر 2025 13:00

جاپان، دن میں دو صرف گھنٹے اسمارٹ فون استعمال کرنے کی اجازت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اکتوبر 2025ء) جاپانی شہر ٹویواکے کے میئر ماسافومی کوکی نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ کئی مہینوں سے، اسمارٹ فون کے ضرورت سے زیادہ استعمال کے منفی اثرات، خاص طور پر براہ راست انسانی رابطے میں تیزی سے کمی، کے بارے میں فکر مند ہیں۔

انہوں نے کہا، ٹرینوں میں بھی، ہر کوئی بس اپنے فون کی اسکرین پر نظریں جمائے رہتا ہے۔

میں نہیں سمجھتا کہ اِسے عام سی بات سمجھا جانا چاہیے، اِس لیے میں اپنے شہریوں کے لیے یہ موقع فراہم کرنا چاہتا تھا کہ وہ غور کریں کہ کیا وہ اپنے اسمارٹ فونز کا ضرورت سے زیادہ استعمال تو نہیں کر رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ٹویواکے میں فونز، لیپ ٹاپس اور ٹیبلٹس کے محدود استعمال سے متعلق ایک مقامی آرڈیننس نافذ کیا گیا۔

(جاری ہے)

اس آرڈیننس میں بالغ افراد اور بچوں دونوں کے لیے کی گئی ہے، جسے شہری کونسل نے 12-7 کے ووٹ سے منظور کیا۔

یاد رہے کہ اس آرڈیننس کی خلاف ورزی پر کوئی جرمانہ نہیں، بلکہ اس کا مقصد خود نظم وضبط کو فروغ دینا ہے۔

چھپن سالہ کوکی نے کہا، یہ یقیناً ایک غیر معمولی قدم ہے، اور ہمیں اس کا احساس ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب یہ آرڈیننس پہلی بار پیش کیا گیا تو مخالفت زیادہ تھی۔ لیکن جب شہریوں کو معلوم ہوا کہ روزانہ کی حد میں کام یا تعلیم کا وقت شامل نہیں ہے اور یہ ایک رہنما اصول ہے، نہ کہ سخت قانون، تو بہت سے لوگ اس خیال سے متفق ہوگئے۔

حد سے زیادہ دخل اندازی

ٹویواکے کی تقریباً اڑسٹھ ہزار کی آبادی میں ہر کوئی اس فیصلے سے خوش نہیں۔ قانون کے طالب علم بائیس سالہ شوتارو کیہارا نے کہا، ''آج کل مطالعہ، مشغلہ، مواصلات ہم ہر کام، ایک ہی اسمارٹ فون کے ذریعے کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ آرڈیننس نوجوانوں کے لیے بے معنی اور غیر موثر ہے۔

پچاس سالہ ماریکو فوجی، جو کے پیشے کے اعتبار سے ایک قانون ساز ہیں، نے مئیر کے اس حکم کے خلاف ووٹ دیا۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ضرورت سے زیادہ اسمارٹ فون کا استعمال ایک سماجی مسئلہ ہے جِسے حل کرنے کی ضرورت ہے، لیکن لوگوں کے ذاتی آزاد وقت کو آرڈیننس کے ذریعے منظم کرنے کے خلاف مجھے شدید تحفظات ہیں۔

ایک مقامی اسٹیشن کے قریب ویڈیو گیم کھیلنے والے مڈل اسکول کے طالب علم ایکا ایٹو روزانہ چار سے پانچ گھنٹے اپنا فون استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ''میں نے آرڈیننس کے اعلان سے ہی پہلے کے مقابلے میں خود سے اپنے فون کے استعمال کو کم کیا ہے اور یہ میرے والدین کے کہنے کے بغیر ہوا ہے۔ لیکن اس کے نقصانات بھی ہیں۔‘‘ ایٹو نے کہا، ''اگر آپ اسمارٹ فون کا وقت کم کرتے ہیں، تو آپ دوستوں سے رابطے میں نہیں رہ سکتے۔‘‘

آرڈیننس کا ایک مقصد شہریوں کی صحت کو بہتر بنانا ہے، خاص طور پر انہیں زیادہ نیند لینے میں مدد دے کر۔

ٹویواکے آرڈیننس ایلیمنٹری اسکول کے طلبہ کو رات نو بجے کے بعد اور جونیئر ہائی اسکول کے طلبہ اور اس سے بڑوں کو رات دس بجے کے بعد اسمارٹ فون استعمال نہ کرنے کی ترغیبدیتا ہے۔

جاپان کے نیند سے محروم شہری

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جاپان کے لوگ دیگر ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں، اکثر طویل کام کے اوکات کی وجہ سے، کم نیند لیتے ہیں۔

ٹویواکے کی رہائشی پچپن سالہ کوکوکا ہیرانو نے کہا کہ وہ اپنے فون کی وجہ سے نیند سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میں مختلف چیزوں کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتی ہوں جو مجھے سمجھ نہیں آتیں، لیکن میں مختلف ممالک کی خبریں دیکھتی رہتی ہوں اور وقت ہاتھ سے نِکل جاتا ہے۔‘‘ ہیرانو اپنے اسمارٹ فون کے استعمال کو محدود کر کے ورزش اور کھانا پکانے کے لیے زیادہ وقت نکالنا چاہتی ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ تین یا چار گھنٹے زیادہ مناسب ہوں گے جبکہ دو گھنٹے بہت کم محسوس ہوتے ہیں۔

مطالعات سے پتا چلا ہے کہ اسمارٹ فونز نیند میں خلل ڈالتے ہیں، جو دماغی صحت پر اثر انداز ہو سکتا ہے جبکہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال تنہائی، ڈپریشن اور اضطراب سے منسلک ہے۔ بچوں کو ممکنہ نقصان سے بچانے کے لیے عالمی کوششوں میں آسٹریلیا کا سولہ سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی کا آئندہ قانون شامل ہے۔

میئر کوکی کے دو بچے ہیں، دس اور سات سال کے، جن کے پاس اپنے اسمارٹ فونز نہیں ہیں، اگرچہ دس سالہ بچہ، ان کی اہلیہ کا فون اجازت کے بغیر استعمال کرتا ہے۔

کوکی نے بتایا کہ وہ خود جاپانی بیس بال کی ہائی لائٹس دیکھنے کے لیے اپنا فون استعمال کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن اب ان کا خاندان کھانے کے وقت اسکرینوں سے پرہیز کرتا ہے۔

ٹویواکے کی رہائشی، چھتیس سالہ خاتون اور تین بچوں کی ماں، یومی واٹانابی نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو آزادانہ آن لائن مواد تلاش کرنے دیتے ہیں، جو کہ خوفناک ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا، ''یہ آرڈیننس واقعی ضروری نہیں تھا۔ یہ ایسی چیز ہے جس کا ہر شخص خود فیصلہ کر سکتا ہے۔‘‘