تحفظ ماحول، جنگلات لگانے کا منفرد انداز

DW ڈی ڈبلیو بدھ 28 جولائی 2021 19:00

تحفظ ماحول، جنگلات لگانے کا منفرد انداز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جولائی 2021ء) دنیا بھر میں جنگلات کا کٹاؤ ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ بھارتی ریاست مہاراشٹر میں بھی یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اب وہاں فارمرز فار فاریسٹس نامی ایک نتظیم نے کسانوں کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے تحت جنگلات لگانے کی اسکیم بنائی گئی ہے۔

فارمرز فار فاریسٹس نامی ادارہ جنگل اگانا چاہتا ہے۔ لیکن یہ صرف جنگل اگانے کا ہی منصوبہ نہیں بلکہ یہ کچھ آگے کی بات ہے۔

فارمرز فار فاریسٹس کی شریک بانی آرتی دھر کے بقول، '' ہم جنگلات کے بارے میں سوچتے ہیں تو صرف یہی بات ذہن میں نہیں آنا چاہیے کہ یہ صرف کاربن اسٹور کرنے والے پاور ہاؤس ہیں۔ بلکہ یہ حیاتیاتی تنوع کا بھی متتعدد حوالوں سے تحفظ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

کاربن گیسیں جذب کرنا، زیر زمین پانی کو تازہ بنانا، زمین کو کٹاؤ سے بچانا اور قدرتی ماحول اور تر و تازہ آب و ہوا کو برقرار رکھنا، یہ سبھی کام۔ یہ جنگلات مقامی ایکو سسٹم کا کلیدی حصہ ہیں، ہماری مارکیٹ یا ہمارا نظام اس امر کا مالیاتی حوالے سے تقابلی جائزہ نہیں لیتا۔ یہ مارکیٹ سسٹم کی ناکامی ہے، جسے ہمارا منصوبہ Payment for Ecosystem Services درست کرنے کی کوشش میں ہے۔

‘‘

کرائے پر جنگلات

فارمرز فار فاریسٹس نامی ادارہ گنیش دھاویل جیسے چھوٹے چھوٹے زمین داروں سے رابطہ کرتا ہے۔ دھاویل نے سن دو ہزار بیس میں اس ادارے کو اپنی زمین کا ایسا دو ایکڑ حصہ پٹے پر دیا، جو اس کے زیر استعمال نہیں تھا۔ اس قطعہ اراضی پر آٹھ ہزار پودے لگائے گئے تاکہ وہاں جنگل اگایا جا سکے۔

زمین کے کرائے کے طور پر یہ ادارہ دھاویل کو آئندہ پانچ برسوں تک ششماہی بنیادوں پر سو ڈالر دے گا۔

تیئیس سالہ گنیش دھاویل کا تعلق زمین دار گھرانے سے ہے لیکن وہ گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کام بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف زمین داری سے گھر کے خرچے پورے نہیں ہو سکتے، اس لیے انہوں نے ذریعہ معاش کے دیگر ذرائع تلاش شروع کرنا کیے۔ اب وہ ایک آٹو ورکشاپ کے مالک بھی ہیں، جہاں سے وہ روزانہ کچھ کما لیتے ہیں۔

گنیش دھاویل کے مطابق ، ''بہت سے لوگوں نے کاشت کاری ترک کر دی ہے۔

وہ فیکٹریوں میں ملازم ہو گئے یا انہوں نے اپنے ذاتی کاروبار شروع کر دیے کیونکہ اب کاشتکاری میں وہ منافع نہیں رہا۔ اسی لیے میں نے بھی یہ ورکشاپ کھول لی ہے۔ کاشتکاروں کو اب یومیہ رقم چاہیے۔ کچھ برسوں سے بارشوں میں بھی بے قاعدگی آ گئی ہے اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو اس علاقے سے کاشتکاری ختم ہی ہو جائے گی۔

جنگلات کی جانچ پڑتال بھی

فارمرز فار فاریسٹس نئے یا پی ای ایس نامی منصوبے کو مزید وسعت دینے کی کوشش میں ہے۔

بنیادی مقاصد دو ہیں، یعنی موجودہ جنگلات کا تحفظ ممکن بنانا اور ساتھ ہی غیر استعمال شدہ اراضی پر مزید جنگلات لگانے کی کوشش کرنا۔

جی پی ایس ٹیگز اور سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے یہ تنظیم ہر درخت کی صحت کا قریبی مشاہدہ بھی کرتی ہے۔

یہ منصوبہ خواتین، کسانوں اور مزدروں کو بھی تعاون فراہم کرتا ہے۔ رام داس شیندھی نے بھی اپنی زمین کا ٹکڑا اسی مقصد کی خاطر تفویض کیا ہے۔

رام داس جز وقتی طور پر ایک پیٹرول اسٹیشن پر کام کرتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ پی ای ایس منصوبے سے انہیں جو رقوم ملیں گی، ان سے وہ کاشتکاری کی طرف واپس لوٹ سکیں گے۔ رام داس کو یقین ہے کہ اگر یہ منصوبہ ان کی مالی حالت بہتر کرنے کا باعث بنا، تو علاقے کے مزید کسان بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اس منصوبے کا حصہ بن سکتے ہیں۔

رام داس اور گنیش دونوں کو امید ہے کہ یہ سرمایہ کاری ان کی آئندہ نسل کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو گی۔

ملکیت لیکن کسانوں کی

گنیش دھاویل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگرچہ تمام تر جنگلات فارمرز فار فاریسٹس نے لگائے ہیں لیکن اس زمین کی ملکیت ہمارے نام ہی ہے۔ کرائے کے پانچ سالہ معاہدے کے باوجود اس زمین پر جو کچھ اگایا جائے گا، اسے بیچنے کے حقوق بھی ہمارے پاس ہی ہوں گے۔ وہ تمام پھل جو ان درختوں پر لگیں گے اور لکڑی بھی، سب کچھ ہماری ہی ملکیت ہو گا۔‘‘

اگر یہ منصوبہ پانچ برس بعد ختم ہو بھی گیا، تو فارمرز فار فاریسٹس نامی ادارہ مستقبل میں اپنے اس اچھوتے تصور سے مزید عطیہ دہندگان کو لبھانے کی کوشش جاری رکھے گا۔ اس طرح جنگلات بھی اگیں گے اور کسانوں کی مالی مدد بھی ممکن ہو سکے گی۔

نائر ارون (ع ب/ م م )