آئی جی پنجاب کا اچانک دورہ چکوال اور لیڈی کانسٹیبل کی دوھائی

Umer Jamshaid عمر جمشید بدھ 15 ستمبر 2021 17:06

چکوال (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ ۔ 15 ستمبر2021ء،نمائندہ خصوصی،قمرعباس) چکوال کے ڈی پی او کے بارے میں کچھ روز قبل بھی لکھا کہ موصوف کا رویہ تھوڑا بادشاہ نما ہے۔ لیکن یہ شاہانہ رویہ صرف عام عوام اور لوکلز کے لیے نہیں بلکہ موصوف کا یہ رویہ تو اپنے محکمہ کے لیے بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ چکوال کے حا لات کچھ دنوں سے کشیدہ تھے اس لیے آئی جی پنجاب کے دورہ چکوال کے بارے میں لکھنے کا وقت نہیں ملا  کیونکہ چکوال کے کشیدہ حالات پر نظر رکھنا اور چکوال کے حالات سے چکوال کی عوام کو با خبر رکھنا بھی ہماری زمہ داریوں میں شامل ہے۔

پادشان جلسہ کی تمام تر روداد بھی ضرور لکھیں گے لیکن اس سے پہلے آئی جی پنجاب کا چکوال کا اچانک دورہ اور ایک لیڈی کانسٹیبل کا تھانے میں رات کو موجود ہونا اور آئی جی پنجاب کا ڈی پی او چکوال  سے اظہار ناراضگی پر بات کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

باخبر زرائع کے مطابق ہوا کچھ یوں کہ کچھ روز قبل ڈی پی او چکوال کے گھر لائین آفس نے تین لیڈی کانسٹیبلز کی ڈیوٹی لگائی۔

ویسے تو لیڈی کانسٹیبلز پولیس میں بھرتی پولیس کی ڈیوٹی اور عوام کی خدمت کے لیے ہوئی تھی۔وہ بھی بڑے فخر سے سب کو بتانا چاہتی ہوں گی کہ ہم پولیس ملازمہ ہیں اور محکمہ میں عوام کی خدمت کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ان کو کیا معلوم کہ بچے کے پیمپر بھی تبدیل کرنے پڑیں گےلیڈی کانسٹیبلز کو ڈی پی او کے گھر لگانے کے بعد ان سےمبینہ طور پر بیلو دی بیلٹ (Below the belt) ڈیوٹی لینے کی کوشش کی گئی جیسے بادشاہ حضور کے گھر خادمہ ہوا کرتی تھیں  ڈی پی او چکوال(شاہ چکوال) نے بھی ان کانسٹیبلز کو اپنے گھر  میں اپنی خادمہ ہی سمجھنے لگے۔

اگر پاکستان کے حالات کی بات کی جائے تو پاکستان کی تاریخ بھی  یہ ہی بتاتی کی افسر اپنے آپ کو بادشاہ اور اپنے نیچے سرکاری ملازمین کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ اس روایت کو ڈی پی او چکوال بھرپور انداز میں پورا کر رہے ہیں۔خیر کہانی کی طرف آتے ہیں ۔ ڈی پی او چکوال نے لیڈی کانسٹیبلز کی ڈیوٹی جب اپنے گھر لگائی تو موصوف تو موصوف  صاحب کی بیگم بھی موصوفہ سرکاری لیڈی کانسٹیبل کو اپنے گھر کی جاگیر سمجھنا شروع کر دیا۔

کیوں کہ موصوف جو شاہ چکوال ٹھیرے۔ لیڈی کانسٹیبلز کو حکم دیا گیا کہ گھر کے تمام کام بھی کرنے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پیمپر بلدنے کی زمہ داریاں نبھانی ہیں۔ جس پر ایک لیڈی کانسٹیبل نے جرت کا مظاہرہ کرتےہوئے اور بادشاہ سلامت کے حکم کی خلاف ورزی کرتےہوئے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ ظاہر ہے بادشاہ حضور کا فرمان نہ مانا جائے تو سزا بھی ملتی ہے۔

جس طرح بادشاہ کوڑوں کی سزا دیا کرتے تھے شاہ چکوال ٹرانسفر اور فل ٹائیم (Full time) ڈیوٹی کی سزا سناتے ہیں۔ ہوا وہ ہی کہ لیڈی کانسٹیببل کو فل ٹائیم ڈیوٹی کی سزا سنا دی گئی اور ایک تھانے میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔جس طرح باشاہوں کے دور میں غلام دعا کرتے تھے کہ اے خدا ہمیں اس ظلم سے بچا۔ اسی طرح اس لیڈی کانسٹیبل کی دعا شاید خدا نے سن لی ۔ ہوا یہ کہ موصوف نے جس تھانے میں اس لیڈی کانسٹیبل کو ٹرانسفر کیا خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آئی جی پنجاب کا سرپرائز وزیٹ بھی اسے تھانے میں ہو گیا۔

آئی جی پنجاب رات کو تھانے کا وزیٹ کرنے پہنچھے ۔تو دیکھا کی ایک لیڈی کانسٹیبل وہاں موجود۔ جس پر آئی جی پنجاب نے اس کانسٹیبل سے پوچھا کہ کیا تم جانتی ہو کہ میں کون ہوں؟ جس پر اس لیڈی کانسٹیبل نے نہیں میں سر ہلایا۔ آئی جی پنجاب کی تعریف سنی تو اس لیڈی کانسٹیبل نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی دوھائی ڈال دی ۔ پھر کیا ہوا ہو گا اس کا تو آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہونا۔

بادشاہ حضور کو آئی جی پنجاب نے خواب غفلت سے جگا دیا ۔اور شاہ چکوال نے لیڈی کانسٹیبل کو ایک فرنٹ ڈیسک پر ٹرانسفر کر دیا۔ یہ معاملہ یہاں ختم نہ ہوا ۔ اس کے اگلے دن آر پی او راولپنڈی نےکلرکہار کی کھلی کچھری میں بھی شرکت کی وہ بھی اسی معاملے کی ایک کڑی تھی۔یاد رہے کہ کسی بھی پولیس لیڈی کانسٹیبل یا پھر کسی بھی خاتون ملزم یا مجرم کو شام کے بعد سپیشل پرمشن کے علاوہ تھانے میں رکھنا  غیر قانونی ہے۔

زرائع کے مطابق اس واقع کے بعد شاہ چکوال کے چکوال چھوڑنے کی خبریں آئی جی آفس میں گردش کر رہی ہیں۔شاہ چکوال کی گدی کہاں ٹرانسفر ہوتی اس پر بات کرنا کچھ قبل از وقت ہو گا۔ جب بھی شاہ چکوال کی ٹرانسفر کی خبریں گردش کرتی ہیں چکوال کی ایک اہم شخصیت کے کچھ خاص لوگوں کے ساتھ مزاکرات کرنے کے بعد ٹرانسفر رک جاتی لیکن زرائع کا کہنا ہے کہ اس بار مزکرات بھی کچھ کامیابی کی طرف جاتے نہیں دکھائی دے رہے۔

متعلقہ عنوان :