پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق آئین پاکستان کے بعد متفقہ دستاویز ، خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف کاروائی ہو رہی ہے

نظام خلافت راشدہ عدل و انصاف پر مبنی ہے ، نور مقدم اور عثمان مرزا کیس نظام عدل و نظام تفتیش پر سوالیہ نشان بن رہے ہیں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کیلئے وزیر اعظم نے حکم دیا ہے ، مقدسات کی توہین اور تکفیر کو علما و مشائخ نے حرام قرار دیا ہے پیغام پاکستان پر عمل سے بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ ملے گا‘سیدنا صدیق اکبر سیمینار سے طاہر اشرفی ، مولانا محمد خان لغاری ودیگر کا خطاب

اتوار 23 جنوری 2022 17:15

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جنوری2022ء) ملک میں انتشار اور فساد پھیلانے کی ہر ساز ش کو اتحاد سے ناکام بنائیں گے ، پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق آئین پاکستان کے بعد متفقہ دستاویز ہے ، خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہو رہی ہے ، نظام خلافت راشدہ عدل و انصاف پر مبنی ہے ، نور مقدم اور عثمان مرزا کیس نظام عدل و نظام تفتیش پر سوالیہ نشان بن رہے ہیں، اگر صاحب استطاعت طبقہ زکو ة کی ادائیگی شروع کر دے تو کوئی غریب بھوکا نہ سوئے، ریاست مدینہ کی طرز کی ریاست کیلئے سب کو جدوجہد کرنی ہو گی ، نظام خلافت اور ملوکیت میں انصاف اور احتساب کا فرق ہے ، متحدہ علما بورڈ نے گزشتہ تین سالوں میں تاریخی کام کیا ہے ، نوجوان نسل کو اسلام کے حقیقی پیغام اعتدال کو بتلانے کیلئے نفرتیں ختم کرنی ہوں گی، محراب و منبر اور ذرائع ابلاغ کا مثبت کردار ہی ملک وقوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ،اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کیلئے وزیر اعظم نے حکم دیا ہے ، مقدسات کی توہین اور تکفیر کو تمام مکاتب فکر کے علما و مشائخ نے حرام قرار دیا ہے ، پیغام پاکستان پر عمل سے ملک میں بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اطہار مقررین نے سیدنا صدیق اکبر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔چیئرمین پاکستان علما کونسل و نمائندہ خصوصی وزیر اعظم پاکستان برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطی حافظ محمد طاہر محمود اشرفی ، مولانا محمد خان لغاری ، مولانا سید ضیا اللہ شاہ بخاری ، مولانا محمد اسلم صدیقی ، علامہ زبیر عابد، مولانا محمد اسلم قاری، مفتی محمد علی نقشبندی، مولانا اسد اللہ فاروق ، مولانا قاری شمس الحق ، مولانا عبد الحکیم اطہر اور دیگر نے نے کہا کہ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازشیں روز اول سے ہیں، سیدنا صدیق اکبر نے عقیدہ ختم نبوت اور اسلامی اقدار کا تحفظ کر کے واضح حکم دے دیا ہے کہ اسلامی احکامات کے سامنے مفادات اور مصلحتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ۔

انہوں نے کہا کہ خلافت راشدہ کیدور میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ کیا گیا، فتنہ اور شر کے خاتمے کیلئے علما و مشائخ کو ہر سطح پر حکومت اور سلامتی کے اداروں کیسا تھ تعاون کرنا چاہیے ، پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق پر ملک کے تمام اکابرین نے دستخط کیے ہیں، اس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن ہو گا، متحدہ علما بورڈ پنجاب نے گزشتہ تین سالوں میں انتہا پسندی ، دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، 116 کیسوں کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ ماضی کی نسبت بہت بہتر سمت قدم ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مدینہ منورہ کی طرز کی ریاست کیلئے سب کو عملی کردار ادا کرنا ہو گا، نوجوان نسل بالخصوص اور قوم کی بالعموم کردار سازی کی ضرورت ہے ، اسلامی نظام کے نفاذ کی باتیں 75سال سے ہو رہی ہیں لیکن عملی طور پر کسی حکمران نے کوئی قدم نہیں اٹھایا ، وزیر اعظم نے رحم للعالمین اتھارٹی قائم کر کے درست سمت قدم اٹھایا ہے ، پیغام پاکستان کو قانونی شکل دی جا رہی ہے ، آج پاکستان کا نصاب ایک ہو رہا ہے ، نصاب میں پاکستان اور اسلام نظر آ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیغام پاکستان کا پیغام ہے کہ اپنا مسلک چھوڑو نہیں ، دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہیں ، جیو اور جینے دو ۔ انہوں نے کہا کہ نصاب تعلیم میں اقلیتوں کے حقوق ، بین المسالک و بین المذاہب رواداری کے مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں امن کمیٹیوں کو فعال بنایا جا رہا ہے اوراز سر نو امن کمیٹیوں کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا ہے،پیغام پاکستان امن کمیٹیاں یونین کونسل سے لے کر مرکز تک قائم کی جائیں گی، جن کا مقصد معاملات کو باہمی اتفاق اور مکالمے کے ذریعے حل کر نا ہے ، متحدہ علما بورڈ اور پاکستان علما کونسل اور تمام مکاتب فکر اور مذاہب کی قیادت کی وجہ سے گزشتہ ایک سال میں کوئی توہین مذہب اور توہین ناموس رسالت کا غلط مقدمہ درج نہیں ہوا ، ہم معاملات کو باہمی اتحاد اور اتفاق سے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ، موجودہ حکومت کے د ور میں مدارس و مساجد کو ماضی کی نسبت بہت زیادہ تحفظ ملا ہے،کسی مسجد اور مدرسے میں انتظامیہ ، پولیس کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں کی گئی ہے ۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ خلافت راشدہ کا نظام مشاورتی نظام ہے ، مشاورتی عمل سے خلفا راشدین نے نظام کو چلایا ہے جبکہ خلافت راشدہ کا نظام بادشاہت کے خلاف ہے،بادشاہت میں احتساب اور انصاف نا ممکن ہو جاتا ہے جبکہ خلافت میں احتساب اور انصاف بنیاد ہے ۔

انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تمام جماعتوں کو مل کر سوچنا چاہیے ، پاکستان میں نظام عدل میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ نئے چیف جسٹس صاحب اس طرف ضرور توجہ دیں گے۔