ملک میں مرگی کے 70 فیصد مریضوں کو علاج معالجے کی مناسب سہولت میسر نہیں ہے، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ن

پیر 14 فروری 2022 18:01

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 فروری2022ء) ایپی لیپسی فائونڈیشن پاکستان کی صدر، معروف نیورولوجسٹ اور مرگی کے مرض کی ماہر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت مرگی کے مریضوں کی تعداد 65 ملین سے زائد ہے جن میں 2.4 ملین مریض پاکستان میںموجود ہیں ۔ملک میں مرگی کے 70 فیصد مریضوں کو علاج معالجے کی مناسب سہولت میسر نہیں ہے۔

اس بیماری کی شرح بچوں میں زیادہ یعنی ہر ایک ہزار میں 14.6 بچے مرگی سے متاثر ہیں۔ ہر سال مرگی کے مرض سے پچاس ہزار اموات واقع ہو جاتی ہیں؂۔ 30 سال سے کم عمر افراد اس مرض سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ دیہاتوں میں مرگی کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ وہاں اسے بیماری کی بجائے آسیب یا جادو ٹونہ تصور کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مرگی کے مرض کا عالمی دن منانے کا مقصد اس مرض کے بارے میں پائے جانی والی غلط فہمیوں اورتوہمات کو ختم کرنا ہے کیونکہ مرگی کو بیماری کے بجائے آسیب یا جادو کا اثر سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ ایک ذہنی اور قابل علاج مرض ہے۔

مرگی کے عالمی دن کے موقع پر ایپی لیپسی فائونڈیشن کے تحت بہادرآباد میں --’’مفت مرگی کلینک‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں مفت طبی معائنہ و آگاہی لٹریچر اوررعایتی نرخوں پر میڈیکل ٹیسٹ کی سہولت فراہم کی گئی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ اعصابی عوارض (Neurological disorders) کی شرح دیگر کئی بیماریوں جیسے ٹی بی، ایڈز، ہاضمہ، سرطان، دل اور دمہ کی بیماریوں سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں 70 فیصد افراد مرگی کے علاج سے محروم ہیں۔ صرف 35 فیصد شہری اور 8 فیصد دیہی علاقوں میں مریض معالج سے علاج کیلئے رجوع کرتے ہیں۔ 50 فیصد مریضوں کا صحیح طریقے سے علاج ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ اس بیماری کو 70 فیصد ادویات کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ہمارے ملک میں اس مرض کے بارے میں معالجین کو بھی مکمل آگاہی حاصل نہیں ہے جبکہ بچوں کی مرگی کے ماہر معالجین کی تعداد 10 سے بھی کم ہے۔

پاکستان میں 10 ہزار مریضوں کیلئے صرف ایک نیورولوجسٹ ڈاکٹر دستیاب ہی-مرگی کے مرض میں خواتین کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ 90 فیصد خواتین مریضوں کا علاج کرانے کی بجائے بیماری کو اس خوف سے چھپایا جاتا ہے کہ بچی کی شادی نہیں ہو سکے گی۔ اس مرض کی آگاہی کیلئے ٹیلی ویژن، اخبارات اور عوامی مقامات پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

اس بیماری کی صورتحال کو سنگین بننے سے روکنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا-ڈاکٹر فوزیہ نے اپیل کی کہ ضلعی سطح پرتمام سرکاری اسپتالوں میں مرگی کے مریضوں کے لئے ایمرجنسی وارڈ قائم کئے جائیں، ریسرچ و تربیتی پروگرامات شروع کئے جائیں، مرگی کے مرض کی ادویات کو سستی کرنے اور ان کی عدم دستیابی و بلیک مارکیٹنگ کے خاتمہ کیلئے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کئے جائیں۔#