ہماری سوسائٹی میں جتنے شعبے ہیں ان کی اپنی اپنی اہمیت ہے،سعید غنی

پرنٹ میڈیا ہو، الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا اس سے وابستہ کم ہی افراد ہیں جن کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہے،وزیر محنت و افرادی قوت سندھ

پیر 21 نومبر 2022 22:18

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 نومبر2022ء) وزیر محنت و افرادی قوت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں جتنے شعبے ہیں ان کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا یا پھر سوشل میڈیا ہو اگر ان سے وابستہ افراد کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہوجائے تو وہ معاشرے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما کرسکتا ہے۔ معاشرے میں برائیوں کا سبب صرف تعلیم کا فقدان نہیں بلکہ معاشرے میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، کرتے ہیں وہ ہے تعلیم نہیں ہے۔

معاشرے میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جس کو میں کہنا چاہتا ہوں لیکن کہہ نہیں سکتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے کی خرابیاں اور خامیاں ٹھیک کرنے کے لئے پہلے مجھے خود کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ لیکن ہماری بدقستی ہے کہ ہم خود ٹھیک نہیں لیکن دوسروں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف وومن، حکومت پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سعید غنی نے کہا کہ میرا میڈیا سے گہرا تعلق رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام شعبوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ پرنٹ میڈیا ہو، الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا اس سے وابستہ کم ہی افراد ہیں جن کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کو اگر اپنی اہمیت کا اندازہ ہوجائے اور اگر ان کا زاویہ درست ہوجائے تو اس کا معاشرے پر بہت بہتر اثر پڑ سکتا ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ اگر بدقسمتی سے ان شعبوں سے وابستہ افراد کا زاویہ درست نہ ہو تو اس سے معاشرے کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کہ شعبہ سے وابستہ وہ لوگ جو خبریں لے کر آتے ہیں یا بناتے ہیں اور لوگوں تک وہ خبر کو پہنچاتے ہیں، ان کو اس چیز کا احساس ہونا چاہیے کہ ان کی خبر کس انداز میں لوگوں تک پہنچنی چاہیے یا اس کا انداز ایسا ہو کہ اس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔

سعید غنی نے کہا کہ میرا ایک موقف ہے کہ ریٹنگ مشین والا کام ختم ہونا چاہیئے کیونکہ کئی کام ریٹنگ کی دوڑ میں خراب ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے کسی دور میں ایڈیٹوریل بورڈ کا کام اہم رہا ہے لیکن جب سے ریٹنگ والا اور جلد سے جلد خبر پہنچانے کی دور میں یہ بھی اب وہ کام نہیں کرسکتا جو کام اس کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں جب سینیٹ میں تھا اس وقت اسٹیرنگ کمیٹی برائے انفارمیشن کا ممبر تھا تو میں نے پیمرا کے متعلق تجوز دی تھی کہ وہ پورے دن تمام چینلز کی بریکنگ نیوز، ٹکرز اور دیگر کو مانیٹر کرکے شام میں بتائے کہ کس چینل نے کتنی بریکنگ دی کتنی صحیح کتنی غلط تھی۔

لیکن افسوس اس پر بھی کام نہیں ہوسکا۔ سعید غنی نے کہا کہ آج جس حوالے سے یہ تقریب منعقد ہوئی ہے اس کے منتظمین سے مجھے کم از کم اتنا ضرور اعتماد ہے کہ انہوں نے جو کام کیا ہوگا وہ درست سمت میں کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک سوسائٹی میں بہتری نہیں آئے گی تب تک مسائل ختم نہیں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ میں جس فیملی سے ہوں میرے خاندان میں ہماری دادی کااہم کردار ہے ، وہ انپڑھ تھی اس نے بیٹے یعنی میرے والد کو پڑھایا جبکہ میرے دادا بھی مزدوری کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میری دادی کی میرے والد کو پڑھانا اور پھر میرے والد کی نوکری پر انہوں نے ہم کو پڑھایا اور آج میں اپنے بچوں کو اس سے زیادہ اچھی تعلیم دلوا رہا ہوں تو یہ سب میری دادی کی اس سوچ کا نتیجہ ہے جس نے ہمارے پورے خاندان کا اسٹیٹس تبدیل کردیا۔ سعید غنی نے کہا کہ معاشرے میں چیزوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنے شعور سے بہت کچھ سیکھا۔

انہوں نے کہا کہ معاشرے میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جس کو میں کہنا چاہتا ہوں لیکن کہہ نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کی خرابیاں اور خامیاں ٹھیک کرنے کے لئے پہلے مجھے خود کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ لیکن ہماری بدقستی ہے کہ ہم خود ٹھیک نہیں لیکن دوسروں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ججز اپنی چیزوں کو ٹھیک کرنے کی بجائے ساری چیزوں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، ہمارے فوجی بھائی اپنی چیزوں کو ٹھیک کرنے کی بجائے سارے ملک کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، میڈیا کے دوست اپنی چیزوں کو ٹھیک کرنے کی بجائے ساری چیزوں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں ہر جگہ کہتا ہوں کہ چھوڑو ساری دنیا ہو اور ساری چیزوں کو بس اپنے آپ کو ٹھیک کرلو۔ سعید غنی نے کہا کہ یہاں خواتین کے حقوق کی بات ہے تو میں بتائیں کہ میرے تین بچے ہیں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں میری دونوں بیٹیوں کو سیاست میں دلچسپی ہے اور میں نے انہیں مکمل اس بات کی آزادی دی ہوئی ہے کہ وہ چاہے کسی بھی شعبے میں آنا چاہیں آئیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ بچوں میں کئی باتوں کا احساس ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں مختلف کیسز کی بات ہوئی ہے اس میں نور مقدم کا کیس ٹیسٹ کیس ہوسکتا ہے انہوں نے کہا کہ اس کیس میں نہ یہ بچی ان پڑھ یا جاہل تھی اور نہ ہی اس کا مجرم ان پڑھ اور جاہل تھا بلکہ دونوں پڑھے لکھے تھے اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس قسم کی برائیوں کے لیئے تعلیم کوئی معیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشرے میں برائیوں کا سبب صرف تعلیم کا فقدان نہیں بلکہ معاشرے میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، کرتے ہیں وہ ہے تعلیم نہیں ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ ہر معاشرے کے افراد کو اپنی اپنی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیے، چاہے وہ میڈیا ہو، سیاستدان ہو، فوج ہو یا اسٹیبلشمنٹ ہو ان کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا سمجھنا اور اس کے مطابق عمل درآمد کرنا چاہیے۔