سٹیزن ہیلتھ انیشیٹیو نے سگریٹ کی غیر قانونی فروخت کو صحت عامہ کے لیے سنگین مسئلہ قرار دے دیا

حکومت سے گمراہ کن اعدادوشمار پیش کرنے والی تنظیموں کی خلاف تحقیقات کا بھی مطالبہ

منگل 23 مئی 2023 22:32

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 مئی2023ء) انسداد تمباکو نوشی کے لیے سرگرم تنظیموں کی جانب سے غیرقانونی سگریٹ کے حجم کو نظر انداز کرتے ہوئے چلائی جانے والی گمراہ کن مہم کے جواب میں صحت عامہ کے تحفظ کے لیے سرگرم سٹیزن ہیلتھ انیشیٹیو (سی آئی ایچ) نے غیرقانونی سگریٹ پر روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ صحت عامہ کے تحفظ کے لیے سرگرم سٹیزن ہیلتھ انیشیٹیو (سی ایچ آئی) نے تمباکو نوشی کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں گمراہ کن اعدادوشمار کی بنیاد پر حکومت پر منظم صنعت کے لیے ٹیکس بڑھانے کے دباؤ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں صحت عامہ کے لیے غیرقانونی سگریٹ کی فروخت سب سے بڑا خطرہ ہے جس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ قانونی اور غیرقانونی سگریٹ کی قیمتوں کے فرق کو کم کیا جائے۔

(جاری ہے)

سی ایچ آئی نے اینٹی ٹوبیکو آرگنائزیشنز کی جانب سے سگریٹ کی غیرقانونی تجارت کو نظر انداز کرکے پوری طاقت قانونی او منظم صنعت کے خلاف استعمال کنے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ملک میں سگریٹ نوشی سے صحت کو پہنچنے والے نقصانات کو بڑھانے کا سبب قرار دیا ہے۔ سی ایچ آئی کے ترجمان واصل خان نے کہا کہ قانونی سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کا غیر ارادی نتیجہ غیرقانونی سگریٹ کی فروخت میں اضافہ کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔

فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کی وجہ سے قانونی سگریٹ کی قیمت میں دگنا اضافہ ہوا ہے جبکہ غیرقانونی سگریٹ بدستور کہیں کم قیمت پر 70سے 80روپے کے درمیان فروخت کی جارہی ہے۔ غیرقانونی سگریٹ عوام کی قوت خرید میں ہونے اور مہنگائی کے اثرات کی وجہ سے صارفین ان سستے غیرقانونی سگریٹ کی جانب راغب ہورہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اینٹی ٹوبیکو آرگنائزیشنز کے اس طرز عمل سے ملک میں سستے سگریٹ کی غیرقانونی فروخت بڑھ ہی ہے جس سے صحت کو لاحق خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔

ترجمان کے مطابق انسداد تمباکو نوشی کے خلاف سرگرم ادارے بے سروپا اور غلط اعدادوشمار کی بنیاد پر حکومت کو گمراہ کرکے منظم صنعت پر ٹیکس بڑھانے کی مہم چلارہے ہیں۔ اس مہم کے لیے نام نہاد اور جعلی اداروں کے اعدادوشمار پیش کیے جارہے ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود نہیں۔اینٹی ٹوبیکو آرگنائزیشنز کیپیٹل کالنگ جیسے ناموں سے پالیسی سازوں کو دھوکا دے رہی ہیں۔

ایسے فرضی اداروں کے من گھڑت اعدادوشمار کو بنیاد بناکر یورومانیٹر، آکسفورڈ اکنامکس اور Ipsosجیسے عالمی اداروں کی تحقیق کو مسترد کیا جارہا ہے جن کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیاء میں غیرقانونی سگریٹ کی سب سے بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔ واصل نے کہا کہ بین الاقوامی تحقیقی اداروں کی ریسرچ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیاء میں سگریٹ کی غیرقانونی فروخت کی سب سے بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔

اینٹی ٹوبیکو آرگنائزیشنز صرف اسمگل شدہ سگریٹ کو غیرقانونی سگریٹ سمجھتے ہیں اور بڑے پیمانے پر پاکستان کے علاقوں آزاد جموں و کشمیر اور کے پی کے میں تیار ہونے والے لاتعداد غیرقانونی سگریٹ برانڈز کو نظر انداز کرتے ہیں جو ایکسائز ڈیوٹی ادا کیے بغیر فروخت کیے جارہے ہیں۔ سی ایچ آئی کے ترجمان نے کہا کہ درحقیقت پاکستان میں غیرقانونی سگریٹ کا مارکیٹ شیئر 40فیصد کے لگ بھگ ہے جبکہ اینٹی ٹوبیکو آرگنائزیشنز ہمیشہ مقامی سطح پر تیار ہونے والی غیرقانونی سگریٹ کے حجم کو نظر انداز کرتی رہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں سگریٹ نوشی کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا اور تمباکو نوشی کے صحت پر مضر اثرات اور جانی نقصانات بھی اسی تناسب سے بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فرضی اداروں کے غلط اعدادوشمار کی بنیاد پر انسداد تمباکو نوشی کے نام پر چلائی جانے والی مہم ملک میں غیرقانونی سگریٹ کی تجارت بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔ پالیسی سازوں کی توجہ صحت عامہ کو درپیش ایک سنگین مسئلے سے ہٹاکر منظم صنعت پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کی مہم کا تمام تر فائدہ غیرقانونی سگریٹ کی تجارت میں ملوث عناصر کو پہنچ رہا ہے۔

ترجمان کے مطابق اینٹی ٹوبیکو آرگنائزیشنز کے اس غیرذمہ دارانہ طرز عمل کے باعث رواں مالی سال حکومت سگریٹ انڈسٹری سے 260 ارب روپے کی وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی۔ رواں مالی سال سگریٹ پر ایف ای ڈی بڑھانے کے بعد 260ارب روپے کی وصولیوں کا ہدف مقرر کیا گیا تھا تاہم ٹیکس وصولیاں 200ارب روپے سے بھی کم تک محدود رہنے کا امکان ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ صحت عامہ کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت گمراہ کن اور غلط اعدادوشمار پیش کرنے والی تنظیموں کے خلاف تحقیقات کرائے اور قانونی و منظم صنعت پر ٹیکس بڑھانے کے بجائے ٹیکس ادا نہ کرنے والی مقامی سگریٹ کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے تاکہ ملک میں سستے سگریٹ تک رسائی کو روک کر صحت عامہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکی