صفدر آباد،سیاسی پارٹیوں ،امیدواروں کی طرف سے انتخابی مہم عروج پر پہنچ گئی

بھر پور انتخابی گہما گہمی ،انتخابی اجتماعات کاسلسلہ بھی جاری ،رات گئے تک سیاسی اجتماعات اور کارنر میٹنگز کا انعقاد

جمعرات 1 فروری 2024 18:18

صفدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 فروری2024ء) الیکشن 2024میں چند دن باقی رہ گئے ہیں، سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کی طرف سے انتخابی مہم عروج پر پہنچ چکی ہے اور بھر پور انتخابی گہما گہمی نظر آرہی ہے،انتخابی اجتماعات کاسلسلہ بھی جاری ہے، رات گئے تک سیاسی اجتماعات اور کارنر میٹنگز منعقد کی جا رہی ہیں۔اس حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق این اے 116اور پی پی 143اور 144میں امیدواروں کی طرف سے انتخابی مہم اپنے روایتی جوش و ولولے کے ساتھ جاری ہے ,تاہم لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ گرمجوشی گذشتہ انتخابات جیسی نہیں ہے جیسے پہلے الیکشن کے قریب نظر آیا کرتی تھی۔

امیدواروں کے پاس ڈور ٹو ڈور جانے کا وقت اب نہیں رہا اس لئے اب کارنر میٹنگز اور چھوٹے چھوٹے جلسے کئے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

این اے 116 میں مسلم لیگ ن کے سردار محمد عرفان ڈوگر اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار خرم منور منج مد مقابل ہیں۔جبکہ تحریک لیبک کے امیدوار ظہیر الحسن شاہ بھی مخالفین کو ٹف ٹائم دیں گے۔جماعت اسلامی کے میاں اسد اللہ اور پیپلز پارٹی کے رائے اعجاز احمد خاں بھی انتخابی عمل میں موجود عرفان ڈوگر مسلسل تین مرتبہ اس حلقہ سے ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں۔

گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار علی سلمان کو 32000 ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی, مگر اس بار عرفان ڈوگر کے مقابلہ میں خرم منج مضبوط امیدوار ہیں ۔تاہم عرفان ڈوگر کی پوزیشن بہتر بتائی جا رہی ہے۔ اسی طرح پی پی 143 میں مسلم لیگ ن کیملک اشتیاق احمد ڈوگر اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار شیر اکبر خان میں سخت مقابلہ ہیشیر اکبر خان 2018 میں ایم پی اے رہ چکے ہیں ۔

جبکہ انکے والد محمود اکبر خان اور والدہ بھی ایم این اے رہ چکی ہیں۔پی پی 143 سے 2018 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار سجاد حیدر گجر نے کامیابی حاصل کی تھی اور وہ تین بار اس حلقہ سے کامیاب ہوئے۔جبکہ اس بار وہ 144 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں اور انکا مقابلہ اپنے سخت ترین حریف پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار سردار سرفراز ڈوگر سے ہے جن سے وہ 2018 کے الیکشن میں صرف 155 ووٹوں سے جیتے تھے۔

اور اس بار انتہائی سخت مقابلہ کی توقع ہے۔جبکہ سیاسی حلقے سرفراز ڈوگر کوفیورٹ قرار دے رہے ہیں۔۔تاہم سجاد گجر اپنی پوزیشن بہتر بنا رہے ہیں۔جبکہ اشتیاق ڈوگر اس حقہ میں نئے ہیں۔وہ سابق نائب ضلع ناظم رحمت ڈوگر کے بھتیجے ہیں۔ اور گزشتہ انتخاب میں شکست کھا گئے تھے۔دونوں امیدواروں کو مختلف برادریوں کی حمایت حاصل ہے۔تحریک لبیک کے محمد یوسف منج,پیپلز پارٹی کے طاہر سعید بھون اور جماعت اسلامی کے محمد ارشد کمبوہ بھی انتخابی میدان میں موجود ہیں۔

تاہم اصل مقابلہ مسلم لیگ ن کیاشتیاق احمد ڈوگر اور پی ٹی آئی کے آزاد امیداوار شیر اکبر خان میں متوقع ہے۔ ملک برادری, شیخ برادری,گجر برادری, ڈوگر برادری, رحمانی برادری, کمبوہ برادری اور راجپوت برادری سمیت دیگر برادریوں کی حمایت مسلم لیگ ن کے امیدوار کے ساتھ ہے۔تاجر برادری کی اکثریت بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے۔ جبکہ ارائیں برادری اورشیخ برادری کی جزوی حمایت شیر اکبر خان کو حاصل ہے۔

ورک برداری اور قریشی برادری بھی تقیسم ہو کر دونوں امیدواروں کی حمایت کر رہی ہے۔تاہم پٹھان برادری شیر اکبر خان کے ساتھ ہے۔جبکہ حلقہ کی خاموش ووٹرز کی بڑی تعداد نتائج پہ اثر انداز ہو گی۔پی پی 143 اور 144 کو مسلم لیگ ن کا قلعہ سمجھا جاتا ہی,مگر اس بار پی ٹی آئی کے حمایتی افراد کی تعداد بھی اچھی خاصی نظر آر ہی ہے۔مسلم لیگ ن کا ووٹر کھل کر سامنے ہے مگر پی ٹی آئی کا ووٹر خاموش ہے اور خاموشی سے اپنی الیکشن کمپین کر رہا ہے۔اس لئے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں سخت مقابلہ کی توقع ہے۔تاہم پی پی 143 میں مسلم لیگ ن کا پلڑا تاحال باری نظر آ رہا ہی, مگر الیکشن کے دن تک صورتحال کس کے حق میں جاتی ہے یہ فیصلہ 8 فروری کو ہی ہو گا۔