ذوالفقار بھٹو کیس، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر رائے دے دی

سابق وزیراعظم کا ٹرائل ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھا، ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں۔ فیصلے کا متن

Sajid Ali ساجد علی بدھ 6 مارچ 2024 11:48

ذوالفقار بھٹو کیس، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر رائے دے دی
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 06 مارچ 2024ء ) سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے کیس سے متعلق سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر رائے دے دی، جس میں کہا گیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رائے سناتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر صدر مملکت نے ریفرنس بھیجا، جس کو بعد میں کسی بھی حکومت نے واپس نہیں لیا، ایڈوائزری دائرہ اختیار کے تحت صدارتی ریفرنس پر رائے دے سکتے ہیں، تمام ججز کی متفقہ رائے ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں ہوا، سابق وزیراعظم کا ٹرائل ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی سزا آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی، ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں لیکن جب تک غلطیاں تسلیم نہ کریں خود کو درست نہیں کرسکتے اور عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیئے۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے بتایا کہ صدارتی ریفرنس مین پوچھے گئے دوسرے سوال کو بغیر رائے دیئے واپس بھیج دیا گیا ہے کیوں کہ دوسرے سوال میں قانونی سوال نہیں اٹھایا گیا اور جس سوال پر معاونت نہیں ملی اس کا جواب نہیں دے سکتے، جب کہ سپریم کورٹ نے تیسرے اور پانچویں سوال کا جواب اکھٹا دیا ہے، سپریم کورٹ شواہد کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتی، تفصیلی رائے میں شواہد کا جائزہ لینے کے لیے تفصیلات جاری کریں گے، تفصیلی رائے بعد میں دی جائے گی۔

بتایا جارہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجربینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھیں۔