ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا ،سپریم کورٹ نے رائے دیدی

بدھ 6 مارچ 2024 23:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 مارچ2024ء) سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے دی کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر محفوظ رائے دی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا ہے کہ ریفرنس میں 5 سوالات اٹھائے گئے ہیں،ذوالفقار علی بھٹو کیس میں نظر ثانی درخواست خارج ہو چکی، فیصلہ حتمی ہو چکا، ہماری رائے یہی ہے کہ بھٹو کو فئیر ٹرائل کا بنیادی حق نہیں ملا،ہم ججز قانون کے مطابق فیصلہ کرنے اور ہر شخص کے ساتھ یکساں انصاف کے پابند ہیں، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے، ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

تاریخ میں کچھ کیسز ہیں جنہوں نے تاثر قائم کیا عدلیہ نے ڈر اور خوف میں فیصلہ دیا، ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے فیصلہ میں کہا ہے کہ بھٹو صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی متفقہ رائے ہے، کسی حکومت نے پیپلزپارٹی کی حکومت کا بھیجا گیا ریفرنس واپس نہیں لیا۔سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل فوجی ضیا الحق کے دور میں ہوا، صدر نے ریفرنس دائر کرکے بھٹو فیصلہ کو دیکھنا کا موقع دیا، صدر مملکت نے ریفرنس بھیجا جسے بعد کی حکومتوں نے واپس نہیں لیا۔

فیصلے میں کہاگیا ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، اٴْن کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل اور سپریم کورٹ میں اپیل میں بنیادی حقوق کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا، اٴْن کی سزا آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی۔فیصلے میں کہاگیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے، آئین اور قانون ایسا مکینزم نہیں فراہم کرتا کہ بھٹو کیس کا فیصلہ اب کالعدم قراردیا جائے، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں نظر ثانی درخواست خارج ہو چکی، فیصلہ حتمی ہو چکا، ہماری رائے یہی ہے کہ بھٹو کو فئیر ٹرائل کا بنیادی حق نہیں ملا۔

سپریم کورٹ نے دوسرا سوال رائے دیے بغیر واپس بھیج دیا ،دوسرے سوال میں قانونی سوال نہیں اٹھایا گیا جبکہ سپریم کورٹ نے تیسرے اور پانچویں سوال کا جواب اکھٹے دیا سپریم کورٹ شواہد کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتی۔چوتھا سوال سزا کا اسلامی اصولوں کے مطابق جائزہ لینے کا تھا، ریفرنس میں مقدمہ کے شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتے، اسلامی اصولوں پر کسی فریق نے معاونت نہیں کی، اسلامی اصولوں کے مطابق فیصلہ ہونے یا نہ ہونے پر رائے نہیں دے سکتے۔

یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے، تفصیلی رائے بعد میں دی جائے گی۔صدر نے ریفرنس دائر کرکے بھٹو فیصلہ کو دیکھنا کا موقع دیا۔فیصلے میں کہاگیا ہے کہ آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہماری آئینی ذمہ داری ہے، بطور جج ہم بلا خوف و خطر، بغیر کسی رغبت اور لگاؤ، بدنیتی سے بالاتر ہو کر قانون کے بلا تفریق فیصلے کریں، عدالتی تاریخ میں کچھ ایسے مقدمات بھی ہوئے جس سے عوامی رائے نے جنم لیا کہ عدلیہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خوف اور لالچ کا شکار ہے،ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں کو کھلے دل سے تسلیم کر کے خود احتسابی کرنی ہے، ہم اس وقت تک اپنی درستگی کر کے آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک ماضی کی غلطیوں کو تسلیم نہ کر لیں۔