صحافی اسد طور کو رہا کر دیا گیا

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے ہفتہ کی صبح ضمانت منظور کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا تھا

muhammad ali محمد علی ہفتہ 16 مارچ 2024 19:00

صحافی اسد طور کو رہا کر دیا گیا
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 مارچ 2024ء ) صحافی اسد طور کو رہا کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ چند روز سے زیر حراست صحافی و وی لاگر اسد طور کو رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی ہفتہ کی شام کو عمل میں آئی۔ ہفتہ کی صبح کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے صحافی اور وی لاگر اسد طور کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

ہفتے کے روز اسد طور کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت اسپیشل جج سینٹرل اسلام آباد ہمایوں دلاور نے کی، فرقیقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے اسد طور کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتے ہوئے انہیں 5 ہزار کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا، اس دوران ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی جانب سے اسد طور کی درخواست ضمانت پر مخالفت نہیں کی گئی، جس پر عدالت نے اسد طور کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔

(جاری ہے)

اسی معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسد طور کی ایف آئی اے نوٹسز کے خلاف درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسد طور کو جاری نوٹسز خلاف قانون قرار دے دیئے، عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ نوٹسز خلاف قانون جاری ہوئے پھر ایف آئی آردرج ہو گئی، ایف آئی آر درج ہونےکے بعد متعلقہ فورم سے رجوع کیا جاسکتا ہے، ازخود نوٹس کا اختیار نہیں اس لیے مزید کوئی حکم نہیں دے سکتے، ویسے بھی صرف نوٹسز کو چیلنج کیا گیا تھا اس لیے درخواست آبزرویشنز کے ساتھ نمٹا رہے ہیں۔

بتایا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران بھی صحافی اسد علی طور کی گرفتاری کا تذکرہ ہوا تھا، جہاں سپریم کورٹ میں دوران سماعت بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا تھا کہ ’اسد علی طور اس وقت جیل میں ہیں‘، تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا ’وہ جیل میں کیوں ہیں؟‘ اس پر وکیل نے بتایا ’ان پر اعلیٰ حکومتی شخصیات کا وقار مجروح کرنے کا الزام ہے‘۔

اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اسد طور کے خلاف ایف آئی آر پر ایڈشنل ڈی جی ایف آئی اے کو مخاطب کر کے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کے ججز کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی، کیا کسی جج یا رجسٹرار نے صحافیوں کے خلاف شکایت کی تھی؟ ہمارا نام استعمال کر کے آپ نے اپنا کام کر لیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسد طور کے خلاف مقدمہ میں سنگین نوعیت کی دفعات عائد کی گئی ہیں، حساس معلومات سمیت عائد دیگر دفعات کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟انکوائری نوٹس میں لکھا گیا کہ عدلیہ کیخلاف مہم پر طلب کیا جا رہا ہے، ایف آئی آر میں عدلیہ کیخلاف مہم کا ذکر تک نہیں،یہ تو عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کیے جانے کیخلاف کیس کی سماعت ہورہی ہے جہاں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے، پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے جب کہ اٹارنی جنرل پاکستان بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ ایک کرائم کی ریکارڈنگ موجود ہے ان ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے؟ اٹارنی جنرل صاحب یہ کس قسم کے آئی جی ہیں؟ ہم ان کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کرتے ہیں۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مطیع اللہ جان اغواء، ابصارعالم پر حملے کے مقدمات میں غیر تسلی بخش کارکردگی رہی، چار سال ہو گئے اور آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ کیا آپ کو چار صدیاں چاہییں؟ اٹارنی جنرل صاحب ان کو ہٹا دیا جانا چاہیئے۔