شہرت کا نشہ معاشرے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے

DW ڈی ڈبلیو بدھ 20 مارچ 2024 16:40

شہرت کا نشہ معاشرے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 مارچ 2024ء) بس ''فیم'' ہدف بن چکا ہے۔لائکس اور ہائی ریٹنگ کے چکروں میں بعض یوٹیوبرز ایک خبر کو مرچ مصالحہ لگا کر حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں نتیجتاً ایسی سنسنی خیز خبر، جو کسی کو بھی گمراہ کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے، سامنے آجاتی ہے۔

شہرت اور بڑا نام حاصل کرنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔

کچھ لوگوں کو یہ سب ورثے میں مل جاتا ہے اور کچھ لوگ اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے شہرت کے حصول کے لیے انتھک محنت اور جدوجہد کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب لوگ مشہور ہونے کیلئے بھرپور محنت کیا کرتے تھے۔ فلم انڈسٹری، تھیٹر، ڈرامہ میں چانس کیلئے خوار ہونا پڑتا تھا۔ نا جانے کتنے اڈیشن ہوا کرتے تھے صرف یہ ٹیسٹ کرنے کے لیے کہ آیا ان میں واقعی ٹیلنٹ ہے جو عوام کے سامنے جمہوری فن کا مظاہرہ کر سکیں۔

(جاری ہے)

یہ آرٹسٹ الفاظ کے چناؤ میں انتہائی محتاط روش اختیار کرتے تھے۔جن میں ثقافت کی چاشنی جھلکتی تھی۔ اسلام آباد، کراچی، لاہور،پشاور، کوئٹہ سینٹرز کے اپنے اپنے نرالے رنگ تھے۔جو نگاہوں کو خِیرہ کر دیتے تھے۔ایسی معیاری انٹرٹینمٹ ہوا کرتی تھی کہ گلیوں کی گلیاں اور بازاروں کے بازار سنسان ہو جایا کرتے تھے۔معاشرتی اصلاح کے تحت ان اسکرپٹس کو تخلیق کیا جاتا تھا۔

ایک ایسی تفریح کہ جس میں خاندان کے افراد بلا کسی جھجک کے سکون و طمانیت کے ساتھ اسے دیکھ سکتے تھے۔ لوگوں کی دلی تمنا ہوا کرتی تھی کہ ''کبھی بڑے بڑے لوگوں کی فہرست میں میرا نام بھی شامل ہوگا''۔ ''پاکستان ٹاپر'' بننے کا جذبہ انہیں متحرک رکھتا تھا مگر اب دور خاصہ بدل چکا ہے۔ ٹک ٹاک فیس بُک، یوٹیوب، انسٹاگرام، یہ وہ مقناطیسی پلیٹ فارم ہیں جنہوں نے اپنی کشش سے بچوں، ٹین ایجرز، بڑوں، بوڑھوں سب کو جکڑ رکھا ہے۔

کچھ لوگ اچھا کانٹیٹ بنا کر معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لا رہے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگ تو بالکل جنونی ہیں۔ لائیک اور ویوز کے چکر میں عجیب و غریب تماشے سامنے آرہے ہیں۔لوگ ہمہ وقت ویڈیوز بنانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں کہ راتوں رات وائرل کیسے ہوا جائے؟

کئی یوٹیوبرز اسکینڈلز خود بناتے ہیں تاکہ وہ ٹاپ ٹرینڈ خبروں کی گردش میں رہیں۔

پہلے پہل لفظ''اسکینڈلز'' فلمی ستاروں سے منسوب کیا جاتا تھا۔اب ہر عام آدمی اس میں ملوث ہے۔بس ''فیم'' ہدف بن چکا ہے۔لائکس حاصل کرنے اور ہائی ریٹنگ کے چکروں میں بعض یوٹیوبرز جو صحافت کی ''ا ب پ'' نہیں جانتے ایک خبر کو چار بتا کر، مرچ مصالحہ لگا کر، حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں جو کہ ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ جن کا مقصد صرف سنسنی پھیلانا ہے۔

حد درجہ وائرل ہونے کا نشہ معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔

سماجی ماہرین کے مطابق شہرت کا نشہ ایک خطرناک بیماری ہے، منشیات سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ منشیات کا عادی علاج سے ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن شہرت کا بھوکا نہیں۔

افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں سستی شہرت کا شوق ہوتا ہے، وہ نازیبا اور اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتیں کرکے ویڈیوز بناتے ہیں اور انہیں خود اپلوڈ کرتے ہیں تاکہ متعلقہ ویڈیوز کو زیر بحث لایا جائے۔

بعض لڑکیاں تو اپنی ہی ویڈیوز وائرل کر کے ہمدردیاں سمیٹ کر، ٹسوے بہا کر اور مشہور بھی ہوگئیں۔ جب لوگوں نے ان کو سوشل میڈیا پر بےگناہ ڈیکلیر کیا تو ان کی جانب سے مزید خودکشی کا ڈرامہ رچایا گیا وہ خبر زبان زد عام رہی اور پھر یکبارگی نکاح کی ریل کو ڈسکلوز کردیا۔ اس طرح ریٹنگ کو پر لگ گئے اور وہ گوگل پر سرچ کرنے والی مشہور شخصیات میں سے ایک بن گئیں

یاد رہے کہ وائرل ہونے کے چکر میں بہت سارے لوگ سلیفیاں لیتے ہوئے بھی موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔

کوئی ٹرین کی زد میں آ گیا تو کوئی جانور کا نوالہ بن گیا کوئی کھائی میں جا گرا۔ کسی نے اپنے ہی گھر میں ڈکیتی کی واردات کروا دی تاکہ بریکنگ نیوز بن جائے۔

دور حاضر میں ہمیں آئے دن اس طرح کے واقعات سننے کو ملتے ہیں، جس میں لوگ بس نام کمانا چاہتے ہیں، چاہے اچھا ہو یا برا۔ اس کی انہیں قطعاً پرواہ نہیں کہ لوگ ان کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کریں گے۔

ایسی شخصیات چند دنوں کے لیے تنقید کا نشانہ بھی بن جاتی ہیں مگر کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آتی۔

میری ذاتی رائے ہے کہ سستی شہرت یا وائرل ہونے کے غیر اخلاقی رویوں کے بڑھتے ہوئے رحجان کی بنیادی وجہ کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی کا نہ ہونا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔