ایک دن پولیو ورکرز کے ساتھ پولیو رضاکاروں کے جذبے اور ہمت کو سلام

پیر 25 مارچ 2024 22:42

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 مارچ2024ء) صحت کے مختلف شعبوں کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہوئے مجھے بلوچستان کے کچھ اضلاع میں پولیو ٹیموں کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق بھی ہوا۔ اس وقت جب بلوچستان میں تین سال بعد پولیو کے دو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں تومیری آنکھوں کے سامنے ان باہمت پولیو ورکرز کی کاوشیں گھومنے لگیں جو بڑی مشقت اور جذبے سے گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلارہی تھیں۔

نور جہاں جو کوئٹہ کی یونین کونسل بلیلی بی میں کام کر رہی تھیں۔ ہم ایک ساتھ آبادی سے زرا دور پہاڑوں کے قریب کچھ خانہ بدوش گھروں کی طرف گئے۔۔ رنگ برنگی کپڑوں میں ملبوس، آنکھوں میں سرمہ بھرے، مٹی سے کھیلتے ہوئے بچے پولیو ورکر کو دیکھ کر اس کی طرف بھاگے اور خوشی خوشی پولیو ویکسین پینے کے لیے اپنا منہ آگے کرنے لگے۔

(جاری ہے)

نورجہاں بھی ان بچوں کے ساتھ کافی خوش نظر آئی۔

"میں 18 سال کی تھی جب میری شادی ہوئی اور سات ماہ بعد ہی بیوہ ہوگئی۔میری بھی بیٹی 11 سال کی ہے جس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے میں کام کر رہی ہوں۔ یہ سب بچے مجھے اپنی بچی کی طرح لگتے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کے پولیو کی وجہ سے کوئی بچہ بھی معذور ہو"، بچوں کو قطرے پلانے کے دوران نورجہاں مجھے اپنے حوالے سے بتاتی رہی۔ بات کرتے کرتے وہ ہانپنے لگتی۔

کیونکہ راستہ اوپر نیچے تھا اور گھر بھی اکثر فاصلے پر تھے۔ سردی کے باوجود اس کے چہرے پر محنت کا پسینہ موتیوں کی طرح چمک رہا تھا۔ کام کے دوران ہی ہمارا ٹکراؤ ایک انکاری ماں سے پڑا جو اپنے بچے کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کر رہی تھی۔ نورجہاں اس کو پولیو ویکسین کے فوائد بتاتی رہی اور اسے منانے کی کوشش کرتی رہی۔ بلا ?خر کوئی 15 منٹ کی بحث کے بعد وہ خاتون اپنے اپنے بچے کو ویکسین پلانے کے لیے رضامند ہو گئی اور نورجہاں نے بچے کو قطرے پلا کر اوراگلے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔

زیادہ تر والدین کو میں پولیو ویکسین پلانے پر آمادہ کر لیتی ہوں۔بعض اوقات ہمیں بڑی سخت باتیں سنی پڑتی ہیں۔ لوگ بدتمیزی بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان معصوم بچوں کے چہروں کو دیکھتی ہوں اور ان کو خوش دیکھتی ہوں تو مجھے اپنا مقصد بہت عظیم لگتا ہے۔ کیونکہ کسی ایک جان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔ اور میں بچوں کو پولیو سے محفوظ بنانے کو کوشش کررہی ہوں۔

نورجہاں سے ملنے کے بعد کچھ اور خواتین ورکرز سے فیلڈ پر کوتوال کے علاقے میں ملاقات ہوئی۔ ایک خاتون ورکر اپنی ایریا سپروائزر کے پاس آئی اور ایک گھر کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اس گھر میں کتے ہیں تو میں بچوں کو قطرے پلانے کے لیے اندر نہیں جا پارہی۔ میری مدد کریں۔ ایریا سپر وائزر نے مجھے بتایا کہ کل بھی ہمارے علاقے میں ایک پولیو ورکر کے پیچھے کتے پڑ گئے۔

اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہ بھاگی اور گر گئی جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ میں چوٹ لگ گئی۔فیلڈ کے دوران میں نے بھی دیکھا کہ ہمارے اردگرد اچھے خاصے قد کاٹھ والے کتے منڈلا رہے ہیں۔ دو کتے تو ہمارے بھی پیچھے پڑے لیکین مقامی افراد اور سیکیورٹی پر معمور اہکاروں کی وجہ سے ہماری بچت ہوگئی۔ اس لمحے میں نے سوچا کہ اتنے خطرناک ماحول میں بھی پولیو ورکرز اپنے کام کو انجام دینے کی سرتوڑ کوشش کر رہیں تھیں۔

نورجہاں اور آوارہ کتو? سے بچتی پولیو ٹیموں کی طرح ہزاروں ایسی فرنٹ لائن پولیو ورکرز ہوں گی جو پولیو کے خاتمے کے عظیم مقصد کے حصول کے لیے ہر ماہ اپنے گھروں سے نکلتی ہیں اور آپ کے گھروں پر دستک دیتی ہیں، یہ وہی باہمت خواتین ہیں جنھوں نے کووڈ کے دنوں میں بھی اپنی ڈیوٹیاں بخوبی نبھائی۔ ان ورکرز کی بدولت ہی بلوچستان تین سال سے زائد عرصہ پولیو فری بھی رہا۔

لیکن کہیں نہ کہیں کوئی کمی ضرور رہ گئی۔جس کے نتیجے میں آج ہمارے صوبے کے دو معصوم بچے پولیو کی وجہ سے معذور ہوگئے۔کوارڈینیٹر ایمرجنسی آپریشن سینٹر برائے پولیو سید زاہد شاہ نے پولیو فرنٹ لائن ورکرز کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان باہمت خواتین کے باعث ہی ہم تقریبا تین سال پولیو فری رہے ہیں۔ اب جبکہ صوبے سے پولیو کے دو کیسیز رپورٹ ہو چکے ہیں تو میری اپنی باہمت ٹیم سے یہی درخواست ہے کہ اچھا کام کر رہی ہیں لیکین مزیدمحنت کریں اور کوشش کریں کہ ہمارا کوئی بچہ پولیو ویکسین پینے سے محروم نہ رہ جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیوکا وائرس پھیل رہا ہے۔ والدین اس خطرے کو سنجیدگی سے لیں اور اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے ضرور پلائیں۔ ساتھ ساتھ حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس بھی ضرور مکمل کروائیں۔ اس نازک وقت میں ہمیں ان باہمت پولیو ورکروں کی انتھک محنت اور کاوشوں کو سراہنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم سب کو پولیو کے خاتمے میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت بھی ہے۔

کونکہ یہ کام صرف حکومت اور پولیو ورکرز کا نہیں بلکہ ہمیں اپنے بچوں کو اس خطرناک بیماری سے بچانے کے لیے اپنا کردارادا کرنا ہو گا۔ اپنے جان پہچان والوں، رشتہ دارووں اور ہمسایوں کو اس بیماری کے حوالے سے آگہی دینی ہو گی۔ علمائے کرام اور قبائلی رہنماؤں کو بھی اس حوالے سے اپنے لوگوں کو شعور دینا ہو گا۔ کیونکہ جب ایک بچہ معذور ہو جاتا ہے تو ساری زندگی کا روگ اسے لگ جاتا ہے۔ معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اور کوئی بھی والدین ایسا نہیں چاہیں گے کہ ان کے بچے ویل چیئر یا بیساکھیوں پر اپنی زندگی کے امتحانات طے کریں۔ بطور والدین ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو صحت مند زندگی دیں تاکہ ان کا مستقبل بھی صحت مند، روشن اور خوبصورت ہو۔