عدالتی امور میں مداخلت پر ہائی کورٹ کے ججوں کے خط پر تحقیقات کا مطالبہ

عدلیہ کی آزادی پر حرف نظام عدل و انصاف اور معاشرے کے لیے شدید نقصان دہ ہے،اسلام آباد بار ایسوسی ایشن

بدھ 27 مارچ 2024 16:58

اسلام آباد /لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مارچ2024ء) اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے خط کے ذریعے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی پر عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کی انکوائری کیلئے مختلف حلقوں سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 میں سے 6 ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین کو ایک چونکا دینے والا خط لکھا جس میں ججوں رشتہ داروں کے اغوا، ان پر تشدد کے ساتھ ساتھ ان کے گھروں کے اندر خفیہ نگرانی کے ذریعے ججوں پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں سے متعلق بتایا گیا تھا۔

معاملے پر بدھ کو صدر اسلام آباد بار ایسوسی ایشن راجا محمد شکیل عباسی کی زیر صدارت بار کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔بعد ازاں بار کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

اعلامیے میں بتایا گیا کہ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کو آئین کا بنیادی وصف سمجھتی ہے اور قانون کی حکمرانی اور آزاد، خود مختار عدلیہ پر یقین رکھتی ہے، بار ایسو سی ایشن چیف جسٹس پاکستان سے معاملے کی شفاف انکوائری کا مطالبہ کرتی ہے۔

جاری کردہ اعلامیے کے مطابق نظام عدل و انصاف پر عوام الناس کا اعتماد عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری سے وابستہ ہے، عدلیہ کی آزادی پر حرف نظام عدل و انصاف اور معاشرے کے لیے شدید نقصان دہ ہے، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن آئین و قانون کی عملداری، عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کے اصولوں کے ساتھ کھڑی ہے۔اعلامیے میں بتایا گیا کہ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن مطالبہ کرتی ہے کہ ججز کے پیشہ وارانہ امور کی آزادانہ ادائیگی کو یقینی بنایا جائے تاکہ آئین کے مطابق بنیادی حقوق کا تحفظ اور انصاف کی بلا تفریق فراہمی ممکن ہو سکے۔

کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن معاملے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتی ہیاور کسی بھی ادارے کی دوسرے ادارے کے امور میں مداخلت کی بھر پور مذمت کرتی ہے۔اعلامیے کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ آزادنہ، قانون اور آئین کے مطابق فیصلوں کو بے خوف و خطر یقینی بنایا جائے۔

بتایا گیا کہ بار ایسوسی ایشن ججز کی دلیری اور بہادری کو سراہتی ہے اور اگر ضرورت پڑی تو عدلیہ کی آزادی کی خاطر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ہراول دستہ ثابت ہوگی، اور ہر وہ اقدام اٹھائے گی جو آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے ضروری ہوگا۔دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بار عدلیہ کی آزادی کو بری طرح متاثر کرنے والی خفیہ ایجنسیوں کو بے نقاب کرنے پر ججز کو سلام پیش کرتی ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا طرز عمل قابل تعریف نہیں ہے، وہ ججز کے دفاع کے لیے کام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اعلامیے میں بتایا گیا کہ ہم خفیہ اداروں کی اپنی پسند فیصلے حاصل کرنے کے لیے مداخلت کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ان سرگرمیوں میں ملوث خفیہ اداروں اور ان کے اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔اعلامیے میں کہا گیا کہ خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کرے، چیف جسٹس پاکستان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ججوں کے تحفظ کے لیے کام کریں گے، لاہور ہائیکورٹ بار عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلا کا قومی کنونشن منعقد کریں گے۔

اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر بلوچستان بار کونسل نے بھی اظہار تشویش کیا ہے۔بلوچستان بار کونسل نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے سو موٹو لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔بلوچستان بار کونسل نے کہا ہے کہ اسلام آبادہائی کورٹ کے ججز کا خط تشویشناک عمل ہے، عدالتی امور میں مداخلت قابل مذمت ہیجو کسی صورت قبول نہیں ہے۔

خیبرپختونخوا بار کونسل نے ججز کے خط میں اداروں کی مبینہ مداخلت پر تحفظات اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی امور میں مداخلت قابل مذمت ہے۔بار کونسل احکام نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا خط تشویشناک عمل ہے، خفیہ اداروں کی عدالتی امور میں مداخلت قابل مذمت ہے۔انہوںنے کہاکہ جج کسی شخص یا ادارے کی عدالتی امور میں مداخلت پر اقدامات اٹھائے، ہم ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے تحفظ کے لیے کردار ادا کریں گے۔

سندھ ہائی کورٹ بار کے ہنگامی اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ بار آئین و قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتی ہے، اور یہ مانتی ہے کہ عدآلیہ کی آزادی آئینی حقوق کی حفاظت کے لیے اہم ہے، تاہم حالیہ ہونے والے انکشاف نے ججوں کی ساکھ، کارکردی کو متاثر کردیا ہے۔ بتایا گیا کہ اداروں کی جانب سے عدلیہ کے ججوں خاندان کے ذریعے یا براہ راست دباؤ ڈالنے کا عمل ججوں کی پرائیوسی میں مداخلت کی بدترین مثال ہے، سندھ ہائی کورٹ بار عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔