امریکی برطانوی طیاروں کا یمن میں الحدیدہ گورنری پر فضائی حملہ

بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی حفاظت کیلئے حملے کئے گئے،امریکی وبرطانوی حکام

منگل 2 اپریل 2024 12:15

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 اپریل2024ء) امریکی اور برطانوی طیاروں نے یمنی الحدیدہ گورنری کے الدریھمی ضلع میں طائف کے علاقے پر حملہ کیا۔ ٹی وی چینل نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ان دنوں امریکہ اور برطانیہ حوثیوں کے ٹھکانوں پر براہ راست فضائی حملے کر رہے ہیں جس کا مقصد اس گروپ کی نیوی گیشن کی آزادی کو خطرے میں ڈالنا اور اس کی عالمی تجارت کو خطرے میں ڈالنے کی صلاحیت کو کمزور کرنا ہے۔

حوثی گروپ نے بحیرہ احمر میں کئی بحری جہازوں پر حملہ کیا۔ امریکی طیارہ بردار بحری جہاز آئزن ہاور پر سوار لیث ہزاری نے کہا کہ طیارہ بردار بحری جہاز آئزن ہاور کے سٹرائیک گروپ کے کمانڈر ایڈمرل مارک میگیز نے تصدیق کی کہ ان کی افواج کو حوثیوں کی جانب سے خطرات کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

حوثیوں نے نے بیلسٹک میزائل داغے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں حوثیوں کے معاندانہ رویے میں کمی واقع ہوئی ہے۔

جب بحری جہاز آئزن ہاور سے کو درپیش خطرات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں بلاشبہ ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی وجہ سے یہاں دشمنی کے خطرات کا سامنا ہے جنہوں نے بیلسٹک میزائل، کروز میزائل، فضائی حملے اور ڈرونز سے حملہ کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایئر کرافٹ کیریئر گروپس کو اس طرح کے خطرے کے خلاف دفاع کے لیے تربیت دی جاتی ہے اور ہم اس وقت تک کامیابی کے ساتھ دفاع برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

ہمیں اس خطرے کی توقع نہیں تھی لیکن ہم ہمیشہ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے جہاز بندرگاہ نورفولک سے 14 اکتوبر کو لانچ کیا اور اسے پہنچنے میں تقریبا ایک مہینہ لگا لیکن ہم یہاں بحیرہ احمر، خلیج عمان اور خلیج عرب میں نومبر سے موجود ہیں۔ اس کامطلب ہے ہم گزشتہ سال نومبر سے اس خطے میں موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری آمد سے پہلے وہ آزادانہ طور پر کام کر رہے تھے اور بغیر کسی جوابدہی کے جو چاہتے تھے کر رہے تھے۔

ان کی بدنیتی پر مبنی سرگرمیاں ہماری آمد تک جاری رہیں۔ میں نے ان طیاروں کے ذریعے جو میں نے سطح پر دیکھا اور ان تمام جہازوں کے ذریعے جو طیارہ بردار بحری جہاز کے گروپ کے ساتھ تھے یہ دیکھا کہ اس خطے میں اس وقت امریکی افواج اور اتحادی ملکوں کی افواج موجود ہیں۔ ان کی موجودگی کے ساتھ حوثی گروپ کے رویے اور سرگرمیوں میں کمی دیکھی ہے۔ ہمارے نقطہ نظر سے اس صورتحال کو ایک کامیابی سمجھا جاتا ہے۔

متعلقہ عنوان :