آئس کا نشہ ہماری نوجوان نسل کو برباد کر رہا ہے

DW ڈی ڈبلیو بدھ 3 اپریل 2024 16:20

آئس کا نشہ ہماری نوجوان نسل کو برباد کر رہا ہے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اپریل 2024ء) آئس کا نشہ کرنے کے بعد بھوک و پیاس سے مبرا انسان 24 سے 48 گھنٹے با آسانی جاگ سکتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان نسل بالخصوص لڑکیوں میں منشیات کا استعمال وباء کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ منشیات فروشوں کی ہٹ لسٹ پر کالج اور یونیورسٹی کے طلبا ہیں کیونکہ امیر اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں سے رقم آسانی سے مل جاتی ہے۔

ان منشیات میں خاص طور پر کوکین، مارفین، ٹریماڈول، میتھاڈون، ڈایامارفین، فینٹانل اور میفیڈرون کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 2018 میں اس بابت ہوشربا انکشافات کیے گئے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اسلام آباد کے 40 تعلیمی پرائیویٹ اداروں میں زیر تعلیم 400 طلبہ و طالبات نشہ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

جس میں آئس یا کرسٹل میتھ سرِفہرست ہے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اب تو یہ تعداد اور بھی بڑھ گئی ہوگی کیونکہ ان مافیاز کے خلاف ایکشن صفر ہے۔

کچھ والدین یہ سوچتے ہوں گے کہ یہ کس بلا کا نام ہے؟ آئس ''میتھ ایمفٹامین‘‘ نامی کیمیکل سے بنتی ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے بلب کے باریک شیشے سے گزار کر گرم کیا جاتا ہے۔ یہ آئس کرسٹل ایک ٹافی کی مانند دکھائی دیتی ہے، والدین کو شبہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی نشہ آور چیز ہے۔

طلبہ کے ٹاپ کرنے کا جنون، نمبروں کی ٹف مقابلہ بازی، اسائمنٹ کا بوجھ نوجوانوں کو یہ نشہ کرنے پر اکساتا ہے۔

نشہ کرنے کے بعد نشئی کی توانائی دوگنا ہو جاتی ہے۔ بھوک پیاس سے قدرے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ نیز 24 تا 48 گھنٹے با آسانی جاگ سکتا ہے۔ اس نشے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ دوسری بار کے استعمال سے ہی کوئی بھی شخص اس کا عادی بن جاتا ہے۔ اگر اس نشے کی تھوڑی سی مقدار سے بھی تجاوز کیا جائے تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ بہت سارے تعلیم یافتہ لوگ بشمول لڑکیاں جو کہ ہاسٹلز کی مکین ہوتی ہیں وہ یہ کہتی دکھائی دیتی ہیں کہ منشیات کا استعمال عارضی ہے، وہ اسے پریشانی کے دوران مثلاً امتحان یا کسی پراجیکٹ کی تیاری یا موڈ بہتر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

یونیورسٹیز میں کسی ڈیلر کی بجائے اکثر دوستوں کے ذریعے منشیات لائی جاتی ہیں۔ جو کہ اِن کو کسی منشیات فروش سے ملتی ہیں۔

پاکستان میں منشیات فروشوں کا پورا نیٹ ورک ایکٹو ہے۔ وٹس ایپ علاوہ ازیں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فیس بک پر آن لائن بکنگ کی جاتی ہے۔ گینگ میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں تاکہ منشیات کو مطلوبہ مقام تک بنا کسی مشکل کے پہنچایا جاسکے۔

ظاہر ہے جب گاڑی میں خواتین ہوں تو پولیس چوکی پر چیکنگ بھی واجبی سی ہوتی ہے۔ دوسری جانب معاشرے کی ستم ظریفی ہے کہ اساتذہ اپنا کلیدی کردار ادا نہیں کر رہے۔ پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ لیکچرز کے دوران سوالات پوچھنا اور طلبہ کی بہتر ذہن سازی وہ واحد ہتھیار ہے جس سے اساتذہ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسٹوڈنٹس کس جہان میں ہیں۔ لیکن اساتذہ کے سوالات پوچھنے کی روایت ہی معدوم ہوگئی ہے۔

سب سے اہم بات یہ کہ والدین بچوں کی سرگرمیوں پر موجودہ حالات کے پیش نظر کڑی جانچ پڑتال کریں۔ اگر بچے کی صحت تیزی سے گر رہی ہے، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ہوگئے ہیں یا آنکھیں اکثر سرخ رہنے لگی ہیں، میلے کپڑے اور نہانے دھونے سے دور بھاگتا ہے، گھر کے بزرگوں یا گھر والوں سے نظریں چُرارہا ہے۔ واش روم میں بہت دیر لگاتا ہے، کھانے پینے کی چیزیں ذائقے میں کڑوی لگتی ہیں یا سوتے ہوئے منہ آدھا کھلا دکھائی دیتا ہے تو یہ نشے کی علامات ہو سکتی ہیں۔

اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں کہ نشہ کرنے والا اسٹوڈنٹ مجرم نہیں بلکہ مریض ہے، اس سے شفقت سے پیش آئیں اور فوری طور پر علاج معالجہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ بچوں کو احساس دلایا جائے کہ ان کا مستقبل تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحت بھی برباد ہوسکتی ہے اور ان ڈگریوں کا کیا فائدہ ہوگا جب کریکٹر سرٹیفکیٹ پر نشئی کا لیبل لگ جائے گا۔

اگر طالبات اس نشہ میں ملوث پائی گئیں تو اس کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔

اس ضمن میں مریض کے گھر والے، دوست عزیز و اقارب اور معاشرہ اپنا کردار ادا کرے تو نشے سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ ماضی میں کہا گیا تھا کہ یونیورسٹی، کالجز میں داخلے کی شرائط میں ڈرگ ٹیسٹ کو بنیادی حیثیت حاصل ہوگی مگر اس کا اطلاق اب تک نہیں ہوسکا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔