چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ کاسپریم کورٹ میں اقربا پروری، امتیازی سلوک پر چیف جسٹس پاکستان کو خط

بادی النظر میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی میں اقربا پروری اور امتیازی سلوک ہو رہا ہے،سپریم کورٹ میں تقرری کیلئے میری سینیارٹی ،کوائف کو نظر انداز کیا گیا،خط کا مقصد جسٹس نعیم اختر افغان کی تقرری چیلنج کرنا نہیں ، مقصد یہ ہے کیا ہمارے ادارے میں میرٹ، شفافیت، برابری کے اصول مدنظر رکھے جاتے ہیں ، جسٹس محمد ابراہیم خان

جمعرات 4 اپریل 2024 20:15

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 اپریل2024ء) چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ بادی النظر میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی میں اقربا پروری اور امتیازی سلوک ہو رہا ہے،سپریم کورٹ میں تقرری کیلئے میری سینیارٹی اور کوائف کو نظر انداز کیا گیا،خط کا مقصد جسٹس نعیم اختر افغان کی تقرری چیلنج کرنا نہیں ، مقصد یہ ہے کیا ہمارے ادارے میں میرٹ، شفافیت، برابری کے اصول مدنظر رکھے جاتے ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ آپ کی توجہ اصول، میرٹ اور شفافیت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ میں ججز کی 4آسامیاں خالی ہیں، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔

(جاری ہے)

جسٹس نعیم اختر افغان کی تعیناتی پر خوش ہوں لیکن میں سینیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہوں، اصولی طور میرا نام سپریم کورٹ کے ججز کے فہرست میں شامل ہونا چاہیے تھا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کا ممبر ہوں، بادی النظرمیں سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی میں اقربا پروری اور امتیازی سلوک ہو رہا ہے، مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ آپ نے صرف اپنے صوبے بلوچستان سے ایک جج کی تقرری کی، مجھے سپریم کورٹ کا جج بنانے کیلئے کیوں مناسب نہیں سمجھا گیا ۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں تقرری کیلئے میری سینیارٹی اور کوائف کو نظر انداز کیا گیا، پاکستان میں ہائی کورٹس میں سینیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہوں۔

توقع تھی سپریم کورٹ میں خالی آسامیاں جلد پوری کی جاتیں تاکہ زیر التوا مقدمات میں کمی لائی جاسکے۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب ملک میں لوگ انصاف کیلئے ترس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ٹیکس دہندگان سے ہمیں تنخواہ ملتی ہے، عوام توقع رکھتے ہیں خالی آسامیوں پر فوری تقرری ہو تا کہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ہونے والی واحد تقرری نے مجھے پریشان کر دیا ہے میں نے بہت سوچا لیکن مجھے کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں 31 سال سے خدمات انجام دے رہا ہوں۔ عدلیہ کے وقار کو بلندکرنے کیلئے میری غیر متزلزل خدمات ہیں، عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے خدمات میرے لیے افتخار کا باعث ہے۔انہوں نے کہا کہ خط کا مقصد جسٹس نعیم اختر افغان کی تقرری چیلنج کرنا نہیں ہے، مقصد یہ ہے کہ کیا ہمارے ادارے میں میرٹ، شفافیت، برابری کے اصول مدنظر رکھے جاتے ہیں مجھے اعتماد ہ ہے کہ آپ میرے خط کو میرے خلاف استعمال نہیں کریں گے،آپ نے خود خطوط لکھ کر صوابدید، امتیازی سلوک اور منظورنظر تقرریوں کے خلاف آواز اٹھائی، اپنی آئینی ذمہ داریاں مکمل طور پر اس امید کے ساتھ ادا کرتا رہوں گا کہ اللہ مجھے میری محنت کا پھل دیگا۔