الیکٹرک گاڑیوں پر منتقلی کا ہدف بہتر فنڈنگ سٹریم اور سٹیک ہولڈرز کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے،ماہرین

پیر 8 اپریل 2024 17:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 اپریل2024ء) پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) میں”پاکستان کی الیکٹرک وہیکل مارکیٹ: چیلنجز، مواقع اور 2030 ایجنڈا“ کے موضوع پر ایک آن لائن مباحثے کا اہتمام کیا گیا۔جس میں ماہرین نے کہا کہ موجودہ ایندھن پر مبنی گاڑیوں سے ای وی یا الیکٹرک گاڑیوں کی طرف منتقلی حکومتی اور نجی شعبے کی سطح پر بہتر فنڈنگ سٹریم اور سٹیک ہولڈرز کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔

افتتاحی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے موجودہ پالیسی فریم ورک ، مارکیٹ کے رجحانات اور ای وی کو اپنانے کے حوالے سے ملک بھر میں امکانات کی وضاحت کی۔ انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے انجینئر عاصم ایاز نے کہا کہ وزارت صنعت و پیداوار نے 34 دو پہیوں والی گاڑیاں بنانے والوں کو لائسنس دیئے ہیں جبکہ دیگر نجی شراکت دار بھی ای وی مینوفیکچرنگ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ مسئلہ قومی سطح پر صارفین کے لئے فنانسنگ کی سہولیات کا فقدان ہے کیونکہ ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں بیٹریوں کی قیمت کی وجہ سے ای وی مہنگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ و زارت ہر گیس اسٹیشن پر ای وی چارجنگ اسٹیشن بنانے کی تجویز دے رہی ہے۔ا ہم ایل یو ایم ایس اور دیگر صنعتی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ الیکٹرک گاڑیوں کو اپنایا جا سکے۔

ا نہوں نے کہا کہ موثر پالیسی کے نفاذ اور ٹیرف اسٹرکچر کے لئے وزارتوں اور متعلقہ محکموں کے درمیان بہتر کوآرڈینیشن انتہائی ضروری ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر نوید اشرف نے کہا کہ بیٹری ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے جس کے لئے تحقیق اور ترقی کے ساتھ ساتھ سرمائے اور تکنیکی وسائل میں اضافے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو فنڈز حاصل کرنے کے لئے آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ عالمی برادری کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لئے الیکٹرک گاڑیاں چاہتی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ جتنی تیزی سے ہم آگے بڑھیں گے ہم اپنا مقصد حاصل کریں گے۔ دیوان موٹرز بی ایم ڈبلیو کے احمد سجیل نے کہا کہ جاپانی آٹوموبائل کمپنیاں الیکٹرک گاڑیوں کی مخالفت کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری کی وزارت برقی گاڑیوں کے معاملے میں بہت تعاون اور خوش آمدید ہے لیکن ملک کو مزید تاخیر سے بچنے کے لئے بامعنی طریقے سے کام کرنے کے لئے ایک پائیدار پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔

مدھت وارث نے کہا کہ شیل گلوبل کے پاس دنیا بھر میں 1000 سے زائد ای وی چارجنگ سٹیشنوں کے ساتھ سب سے بڑا ای وی سیٹ اپ ہے اور اس نے پاکستان میں اپنے ای وی ریپڈ چارجر چلائے ہیں۔ مزید برآں شیل کا سب سے بڑا ای وی چارجنگ سٹیشن چین میں لانچ کیا گیا ہے جس کی گنجائش 250 چارجنگ پوائنٹس ہے۔ مدھت وارث نے کہا کہ مقصد کے حصول کے لئے کے الیکٹرک کی شراکت داری اہم ہے۔

ڈاکٹر عزیر انور خان نے کہا کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے کے اخراج کی وجہ سے ملک میں ہوا کے معیار اور ماحولیاتی خطرات بہت زیادہ ہیں جبکہ درآمد کردہ تیل کا 60 فیصد موٹر سائیکلوں کے ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایندھن پر مبنی گاڑیوں سے براہ راست الیکٹرک گاڑیوں میں منتقل ہونے کے لئے نجی فنڈز کی ضرورت ہے۔ عبدالہادی نے کہا کہ موجودہ ای وی پالیسی معیار کے مطابق کام نہیں کر رہی ہے کیونکہ مینوفیکچرنگ ، چارجنگ انفراسٹرکچر اور دیگر شعبوں میں کوئی پیشرفت حاصل نہیں ہوئی ہے تاہم ہمیں مقامی بیٹری ڈویلپمنٹ سیٹ اپ کے لئے ملک کے اندر ایک موٹر مینوفیکچرنگ سسٹم کی ضرورت ہے ۔

نعمان نے کہا کہ صارفین کے اختتام پر ایک مخمصہ ہے جبکہ ای وی کو اپنانے کے لئے ممکنہ چارجرز کے لئے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی اشد ضرورت ہے۔ ملک ارسلان نے کہا کہ ملک کو کلائمیٹ فنانسنگ کے حوالے سے اپنی استعداد کار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ دستیاب ہے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کے ذریعے سنگ میل عبور کیے بغیر کوئی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اپنے اختتامی کلمات میں ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ ای وی کو قومی تجارت اور بجلی کے شعبے سے جوڑنے سے مسئلہ حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ای وی پر عمل درآمد نہ صرف پی بلکہ صنعت، تعلیمی اداروں اور مارکیٹ اتحاد کے ذریعے بھی کیا جانا چاہئے۔