سابق کمشنر راولپنڈی کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست، لیاقت علی چٹھہ نے جواب جمع کروادیا

پیر 15 اپریل 2024 16:58

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 اپریل2024ء) راولپنڈی کی مقامی عدالت میں سابق کمشنر راولپنڈی کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت ہوئی جس دوران لیاقت علی چھٹہ نے عدالت میں اپنا جواب جمع کروادیا۔سماعت ایڈیشنل سیشن جج حاکم خان بکھر نے کی، سابق کمشنر لیاقت علی چھٹہ کی جانب سے ان کے وکیل نے عدالت میں پیش ہوکر جواب جمع کروایا۔

لیاقت علی چٹھہ نے اپنے جواب میں بتایا کہ میرے خلاف 2 انکوائریاں چل رہی ہیں، ان میں پیش ہو رہا ہوں، ایک انکوائری الیکشن کمیشن اور دوسری محکمانہ طور پر چل رہی ہے۔انہوں نے جواب میں بتایا کہ میری جانب سے میرے وکیل پیش ہوں گے۔بعد ازاں عدالت نے سابق کمشنر کی جانب سے جواب جمع کرانے پر سماعت 20 اپریل تک ملتوی کر دی۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ سابق کمشنر کے خلاف زیب فیاض ایڈووکیٹ نے اندراج مقدمہ کی درخواست دائر کر رکھی ہے ، درخواست میں سٹی پولیس افسر (سی پی او) راولپنڈی اور چوکی انچارج سول لائنز کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواستگزار نے مؤقف اپنایا کہ تھانہ سول میں درخواست دینے کے باوجود مقدمہ درج نہیں کیا گیا، سابق کمشنر راولپنڈی نے پریس کانفرنس کر کے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے،سابق کمشنر نے 17 فروری کو پریس کانفرنس کی اور رو پوش ہو گئے۔واضح رہے کہ 13 مارچ کو راولپنڈی کی مقامی عدالت نے پولیس کو سابق کمشنر لیاقت علی چٹھہ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

پولیس کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ سابق کمشنر راولپنڈی انتخابات دھاندلی والی گفتگو کے بعد سے اب تک مسلسل روپوش ہیں اور سابق کمشنر راولپنڈی اور اپنے آبائی گاؤں حافظ آباد والے گھر بھی دستیاب نہیں ہیں۔عدالت نے سابق کمشنر راولپنڈی کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے پولیس کو آئندہ تاریخ پر لیاقت علی چٹھہ کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے معاملے کی سماعت 15 اپریل تک ملتوی کردی تھی۔واضح رہے کہ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے تقریباً 10 دن بعد کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ مٴْجھے نگران حکومت نے الیکشن کروانے کے لیے لگوایا گیا تھا، الیکشن ٹھیک نہیں کروا سکا لہٰذا میں استعفیٰ دیتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ تھا کہ میں ڈیوٹی ٹھیک سے نہیں کر سکا، قومی اسمبلی کے 13 کے حلقوں کے نتائج تبدیل کیے گئے اور ہارے ہوئے امیدواروں کو جتوایا۔

انہوںنے کہا تھا کہ راولپنڈی سے 13 لوگوں کو جتوایا گیا، 70، 70 ہزار لیڈ والوں کو ہروایا گیا، میرے ماتحت یہ کام نہیں کرنا چاہ رہے تھے، میرے سامنے پریزائیڈنگ افسران رو رہے تھے۔کمشنر راولپنڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس بھی انتخابی دھاندلی میں ملوث ہیں، انہیں بھی عہدوں سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کمشنر راولپنڈی کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے الزامات کی تردید کردی تھی اور الزامات کی چھان بین کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا۔

رہنما پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر خان نے مبینہ دھاندلی کے حوالے سے سابق کمشنر راولپنڈی کے الزامات پر الیکشن کمیشن کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے اور اس پر عدالتی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔بعدازاں 22 فروری کو سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے اپنے الزامات پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگ لی تھی۔اپنے تحریری بیان میں سابق کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے غلط الزامات لگانے پر معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے ایک سیاسی جماعت کے بہکانے پر اپنا بیان دیا، میرا بیان صریحاً غیر ذمہ دارانہ عمل اور غلط بیانی تھی، مجھے اپنے بیان پر بہت شرمندگی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ پریس کانفرنس کا دن سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ایک سیاسی جماعت کے احتجاجی پروگرام کے ساتھ منسلک کرتے ہوئی17 فروری کو رکھا گیا، چیف جسٹس کا نام جان بوجھ کر شامل کیا گیا اور مقصد ان کے متعلق عوام میں نفرت بھڑکانا تھا۔