مختلف گیمنگ ایپس نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے بوگس خبریں نشر کروا کر پاکستانیوں کو فراڈ کا نشانہ بنانا شروع کر دیا

پیر 15 اپریل 2024 17:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 اپریل2024ء) پاکستان میں، مختلف گیمنگ ایپس نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس ( اے آئی) کی مدد سے ملک کے مختلف نیوز چینلز پر بوگس خبریں نشر کروا کر پاکستانیوں کو اپنی جانب راغب کرنا اور ان سے پیسہ کمانا شروع کر دیا ہے۔ یہ ایپس عام طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ فیس بک اور ٹویٹر پر اشتہارات چلاتی ہیں، جو بڑے انعامات اور آسان پیسہ کمانے کے وعدے کرتی ہیں۔

ان ایپس میں، صارفین کو ابتدائی طور پر 500 سے 20,000 روپے تک کی رقم انویسٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بار جب وہ رقم جمع کروا دیتے ہیں، تو انہیں گیم کھیلنے یا مختلف کاموں کو مکمل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ ان کاموں کے بدلے میں، انہیں انعامات کے طور پر نقد رقم یا ورچوئل کرنسی ملتی ہے۔

(جاری ہے)

تاہم، یہ ایپس اکثر دھوکہ دہی کا شکار ہوتی ہیں اور صارفین کو ان کے پیسے نہیں دیتی ہیں۔

کچھ ایپس میں، انعامات صرف ورچوئل کرنسی میں ہوتے ہیں جنہیں حقیقی پیسے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ دیگر ایپس میں، صارفین کو انعامات حاصل کرنے کے لیے تقریباً ناممکن کاموں کو مکمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ان ایپس نے بوگس خبریں نشر کرنے کے لیے اے آئی کا بھی استعمال کیا ہے۔ یہ خبریں اکثر مشہور شخصیات یا حکومتی اہلکاروں کی طرف سے کی گئی غلط بیانات کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔

ان خبروں کا مقصد صارفین کو ایپس میں سرمایہ کاری کرنے پر قائل کرنا ہوتا ہے۔ان بوگس خبر یں نشر ہونے کے بعد صارفین اکثر ان ایپس میں اپنی رقم کھو دیتے ہیں جب انہیں ان کے پیسے نہیں دیے جاتے ہیں۔صارفین اس وقت ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں جب گیم کھیلنے کے بعد بھی پیسے نہیں ملتے ۔ یہ معاملہ سائبر کرائم کے لئے بھی ایک چیلنج ہے کیونکہ ان ایپس کے ذریعے ذاتی ڈیٹا بھی چوری ہورہا ہے ۔

یہ گیمنگ ایپس فراڈ کی ایک نئی جہت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے، یہ ایپس بوگس خبریں پھیلانے اور صارفین کو دھوکہ دینے کے لیے زیادہ نفیس اور پیچیدہ طریقے استعمال کر سکتی ہیں۔پاکستان کے متعلقہ اداروں وفاقی تحقیقاتی ادارہ ، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ان اداروں کو ان ایپس کو بند کرنے اور صارفین کو ان سے بچانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

وہ صارفین کو ان ایپس میں سرمایہ کاری کرنے سے خبردار کرنے کے لیے مہمات بھی چلا سکتے ہیں۔صارفین کے لیے مشورہ ہے کہ وہ ان گیمنگ ایپس میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے محتاط رہیں۔ایپس کے بارے میں تحقیق کریں اور صرف قابل اعتماد ذرائع سے ڈاؤن لوڈ کریں۔ایپس کی رازداری کی پالیسیوں اور شرائط و ضوابط کو پڑھیں۔اگر کوئی صارف کسی ایپ کے بارے میں شک کا شکار ہے، تو وہ ایف آئی اے ،سٹیٹ بینک اور پی ٹی اے سے رابطہ کر سکتا ہے۔

یہ گیمنگ ایپس ایک نیا اور خطرناک قسم کا فراڈ ہیں۔ آئی ٹی ماہرین کہ کہنا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ( اے آئی) کے ذریعے پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کے نیوز بلیٹن میں گیمنگ کے جعلی خبروں کو پھیلانا اور لوگوں کو دھوکہ دہی اور فراڈ کے لیے استعمال کرنا ایک تشویشناک رجحان ہے۔ یہ رجحانات جعلی خبریں غلط معلومات اور غلط معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں، جس سے عوامی رائے اور رویوں میں ہیرا پھیری ہو سکتی ہے۔

اس سے سماجی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے، اور یہ حکومتی پالیسیوں اور فیصلہ سازی کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ جعلی خبریں مالی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں، بشمول سرمایہ کاری میں دھوکہ دہی اور شناخت کی چوری۔ یہ کاروباروں اور افراد دونوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جعلی خبریں سماجی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں، بشمول تشدد اور امتیازی سلوک کو ہوا دینا۔

یہ معاشرے کے تانے بانے کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور لوگوں کے درمیان اعتماد کو کم کر سکتا ہے۔ان رجحانات سے نمٹنے کے لئے جعلی خبروں کی نشاندہی اور اس سے بچنے کے لیے تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں میڈیا کی خواندگی کی تعلیم کے پروگراموں اور وسائل کو فروغ دینا شامل ہو سکتا ہے۔جعلی خبروں کا پتہ لگانے اور اسے پھیلنے سے روکنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس میں فیکٹ چیکنگ ٹولز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جعلی خبروں کی پوسٹس کو ہٹانے کے لیے خودکار نظام شامل ہو سکتے ہیں۔ جعلی خبروں کی پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قوانین اور ضوابط بنائے جا سکتے ہیں۔ اس میں جعلی خبروں کی اشاعت کے لیے جرمانے اور سزاؤں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے جعلی خبروں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔ اس سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں میڈیا کی خواندگی کی تعلیم، ٹیکنالوجی کا استعمال، اور قانون سازی شامل ہو۔