مارکیٹوں میں عید سیزن پر تاریخ کی بدترین مندی

سال 2024، 75 سالوں کا سب سے بدترین سال قرار، عید کا 70 فیصد سامان فروخت ہی نہ ہو سکا

muhammad ali محمد علی پیر 15 اپریل 2024 19:28

مارکیٹوں میں عید سیزن پر تاریخ کی بدترین مندی
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 اپریل2024ء) مارکیٹوں میں عید سیزن پر تاریخ کی بدترین مندی، سال 2024، 75 سالوں کا سب سے بدترین سال قرار، عید کا 70 فیصد سامان فروخت ہی نہ ہو سکا۔ تفصیلات کے مطابق تاجروں کا 2024 عید سیل سیزن ملکی تاریخ کا سب سے بدترین اور مایوس کن سال قرار دے دیا، مارکیٹوں میں ملکی تاریخ کی بدترین مندی نے تاجروں کے ہوش اڑادیئے، اعصاب شکن مہنگائی سے خریداروں کی قوتِ خرید شدید متاثر ہوئی، بازاروں میں چہل پہل، گہما گہمی اور رونقوں کے باوجود حسبِِ روایت خریداری نہ ہوسکی، خریداری 40فیصد تک محدود رہی، ملک کے سب سے بڑے شہر میں بمشکل سوا کروڑ افراد عید پر نئے کپڑے خرید سکے، عید سیل سیزن اعصاب شکن مہنگائی کی نذر ہوگیا، تاجر 15تا 18 ارب روپے کا مال فروخت کرنے میں کامیاب ہوسکے، عید پر فروخت کیلئے گوداموں میں جمع کیا گیا 70فیصد سے زائد سامان دھرا کا دھرا رہ گیا۔

(جاری ہے)

 اس حوالے سے آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کے مطابق تباہی سے دوچار کاروبار، محدود آمدنی اور تسلسل کے ساتھ بڑھتی ہوئی ہوشربا اور ناقابلِ برداشت مہنگائی عوام کی عید کی خوشیاں بھی نگل گئی،80فیصد خریداری خواتین اور بچوں کے کپڑوں اور جوتوں کیلئے کی گئی، تاجروں نے 2024کو کاروباری لحاظ سے گذشتہ 75سالوں کا سب سے مایوس کن سال قرار دیا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی،عید شاپنگ کے حوالے سے مخصوص اور معروف تجارتی علاقوں کلفٹن، صدر، طارق روڈ، حیدری، گلشنِ اقبال، ناظم آباد، ملیر، لانڈھی، گلستانِ جوہر، لیاقت آباد، بہادر آباد، جوبلی، جامع کلاتھ، اولڈ سٹی اور دیگر علاقوں کی مارکیٹیں خریداروں کی منتظر رہیں، انھوں نے کہا کہ استطاعت کم ہونے کے سبب 90فیصد خریداروں کی دلچسپی سستے مال میں زیادہ رہی، تجارتی حب کراچی کا کاروبار سال کے سب سے بہترین سیل سیزن میں اجڑ گیا، انھوں نے کہا کہ ملک میں کسی غیرمتوقع سیاسی و معاشی بحران کے اندیشوں کا شکار تاجر مال منجمد ہوجانے کے خوف سے زیادہ اسٹاک جمع کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے، بنیادی ضروریاتِ زندگی، بجلی، گیس، پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے غریب اور متوسط طبقے کو حواس باختہ کردیا،تاجروں کیلئے کاروباری و گھریلو اخراجات پورا کرنا مشکل اور ادھار پر لیئے گئے مال کی ادائیگیوں کے لالے پڑگئے، انھوں نے کہا کہ معاشی حب کراچی کی تجارت کا چمن موسم بہار میں اجڑگیا، انھوں نے موجودہ صورتحال کو ملکی معیشت اور تجارت کیلئے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عید سیزن کی تباہ حالی نے دکانداروں کے حوصلے پست اور ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، انھوں نے کہا کہ خریداروں کا رحجان خواتین اور بچوں کے کم قیمت ریڈی میڈ گارمنٹس، جوتے، پرس، کھلونے، ہوزری، آرٹیفیشل جیولری، زیبائش کا سامان وغیرہ کی جانب رہا،بیشتر خریداروں نے خواہشات کے برعکس صرف ایک سوٹ خریدنے پر اکتفا کیا، مارکٹوں میں درآمدی اشیا کے اسٹاک کم ہونے سے مقامی مصنوعات کی فروخت میں تیزی رہی، انھوں نے انتہائی افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حسبِ روایت رواں سال بھی مصنوعی مہنگائی مافیا اور موقع پرستوں نے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچاکر غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ دی اور ان کیلئے زندگی کی بنیادی سہولیات کا حصول مشکل ترین بنادیا، غریب اور متوسط طبقہ کچن کے مسائل میں پھنس کر عید جیسے مذہبی تہوار کی خوشیاں منانے سے بھی محروم رہا، انھوں نے شہر میں امن و امان کے ذمے دار اداروں پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک میں پولیس،ڈاکو اور لٹیرے ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے جو لٹیروں سے بچ گیا وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا، پارکنگ مافیا نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے پولیس کی مدد سے بدمعاش اور غنڈہ عناصر پارک کی گئیں گاڑیوں کی فیس وصول کرتے رہے، مقامی و غیر مقامی گداگروں کی فوجِ ظفر موج شہر میں دندناتی رہی جن کی روک تھام کیلئے سرکاری سطح پر کوئی بھی حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی، پولیس کے ہاتھوں کاغذات کی جانچ پڑتال کے بہانے بھی رشوت ستانیوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا، مارکیٹوں میں جرائم پیشہ خواتین بھی مال، نقدی، موبائل فونز اور پرس پر ہاتھ صاف کرتی رہیں۔