مودی ایک چائے فروش سے مقبول رہنما کیسے بنے؟

DW ڈی ڈبلیو منگل 16 اپریل 2024 21:20

مودی ایک چائے فروش سے مقبول رہنما کیسے بنے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2024ء) نریندر مودی کا سیاسی عروج گوکہ اس صدی کے بھارت کے بدترین فرقہ وارانہ فسادات میں ان کے ملوث ہونے کے الزامات اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی مخاصمت سے متاثر ہوا، لیکن اس وقت وہ دنیا کے مقبول ترین رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں اور جمعے کو شروع ہونے والے قومی انتخابات کے بعد تیسری مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر ان کے ایک بار پھر فائز ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔

جنوبی بھارت میں مودی کی حمایت کتنی؟

مودی کو آئندہ انتخابی فتح کا یقین، وزراء کو نئے سالانہ اہداف تجویز کرنے کی ہدایت

مودی کے حامی ان کی شخصیت کے مداح ہیں۔ بھارت کی اکثریتی ہندو آبادی میں ان کا امیج ایک ایسے رہنما کا ہے، جو ان کی امنگوں کی نمائندگی کرتا ہے اورجس نے زندگی میں غربت اور عام لوگوں کو پیش آنے والے مسائل اور مصائب کو نہ صر ف بہت قریب سے دیکھا ہے بلکہ وہ ان سے گزرا بھی ہے۔

(جاری ہے)

نریندر مودی خود اس کا فخریہ اظہار بھی کرتے ہیں اور اپنی انتخابی ریلیوں میں اس حوالے سے اپوزیشن کوحملوں کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ ان کا یہ جملہ اب کافی مشہور ہو چکا ہے، ''یہ لوگ میرے کم حیثیت ماضی کی وجہ سے مجھے پسند نہیں کرتے۔ انہیں یہ پسند نہیں کہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والا شخص وزیر اعظم بن جائے۔ اور یہ لوگ اپنی اس 'نفرت‘ کو چھپانے میں ناکام رہے ہیں۔

‘‘

چائے فروش کا بیٹا

نریندر دامودر داس مودی 1950میں مغربی ریاست گجرات میں پیدا ہوئے۔ وہ چھ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر ہیں۔ ان کے والد مقامی ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچا کرتے تھے۔

ایک اوسط طالب علم مودی کو پرجوش خطابت کی خوبی قدرتی طور پر ملی تھی، جس کا استعمال انہوں نے اسکول کے ڈیبیٹنگ کلب اور تھیٹر میں اپنی کارکردگی میں بخوبی کیا۔

لیکن ان کی زندگی میں سیاسی مستقبل کی بنیاد آٹھ سال کی عمر میں اس وقت پڑی جب وہ سخت گیر ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں شامل ہوئے۔

کیا مودی کا بھارت واقعی 'وشوا مترا' یا 'دنیا کا دوست' ہے؟

بھارت میں متنازعہ ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ کا نفاذ بہت جلد

اس کے بعد مودی نے سیکولر بھارت میں ہندو بالا دستی کو فروغ دینے کے مقصد کے لیے خود کو وقف کر دیا۔

حتیٰ کہ اٹھارہ سال کی عمر میں اپنی شادی کے فوراً بعد ہی اپنی بیوی کو چھوڑ کر نکل گئے۔ انہوں نے اپنی بیوی کو کبھی باضابطہ طلاق نہیں دی لیکن ازدواجی زندگی کو اس لیے ترک کر دیا کہ آر ایس ایس کی صفوں میں آگے بڑھنے کی راہ میں وہ زندگی ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ دراصل آر ایس ایس کے سینیئر رہنماؤں سے مجرد زندگی گزارنے کی توقع کی جاتی ہے۔

سیاست میں قدم

آر ایس ایس نے مودی کو اپنے سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں کیریئر بنانے کے لیے تیار کیا، جو کہ سن 1990کی دہائی میں ایک بڑی طاقت بنتی جا رہی تھی۔

انہیں سن 2001 میں گجرات کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا، لیکن اگلے ہی سال یہ بھارتی ریاست فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں آ گئی۔ فساد ات کا سبب مبینہ طور پر ایک ٹرین میں آتش زنی کا وہ واقعہ تھا، جس میں درجنوں ہندو عقیدت مند ہلاک ہو گئے تھے۔

ریاست گیر فسادات اور تشدد کے نتیجے میں تقریباً دو ہزار افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

مودی پر بدامنی پھیلانے والوں کی مددکرنے اور امن عامہ کو برقرار رکھنے میں ناکام رہنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔

مودی نے بعد میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ایک نامہ نگار کو بتایا تھا کہ فسادات سے نمٹنے میں ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ رہی تھی کہ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ''میڈیا کو کیسے ہینڈل کیا جاتا ہے۔‘‘

بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے کرائی گئی تحقیقات کے نتیجے میں مودی کو تمام الزامات سے بالآخر بری کر دیا گیا تھا۔

لیکن عالمی سطح پر ان کے امیج کو نقصان پہنچا اور برسوں تک امریکہ اور برطانیہ میں ان کے داخلے پر پابندی عائد رہی۔

لیکن بھارت کے تبدیل ہوتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں داخلی سطح پر مودی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی نے مسلسل دو مرتبہ زبردست انتخابی کامیابیاں حاصل کیں اور سن 2014 میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے ایک دہائی بعد وہ ایک مضبوط، وفادار پارٹی کی حمایت سے ایک منقسم اپوزیشن کے لیے ناقابل شکست نظر آتے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی کے سیاسی حریفوں کے خلاف قانونی کارروائیاں اور کبھی متحرک رہنے والے میڈیا کے خلاف مسلسل کارروائی ملک کے لیے خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔

بھارت کی 210 ملین کی آبادی والی مسلم کمیونٹی بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے۔ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہندوؤں کے لیے مقدس سمجھی جانے والی گائے کے مبینہ ذبیحہ کے واقعات پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

درجنوں افراد کی اب تک لنچنگ کی جا چکی ہے اور اس سے کہیں زیادہ مسلمان شہری جیلوں میں بند ہیں۔

’وشو گرو‘ بننے کا دعویٰ

لیکن مغربی جمہوریتوں نے چین کی بڑھتی ہوئی اجارہ داری کو روکنے کے لیے ایک علاقائی اتحادی پیدا کرنے کی امید میں بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کو نظر انداز کر دیا۔

مودی کو گزشتہ سال امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کے غیر معمولی اعزا ز سے نوازا گیا اور انہیں صدر جو بائیڈن کی دعوت پر وائٹ ہاوس میں ریاستی استقبالیہ بھی دیا گیا۔

انہوں نے بھارت کہ بڑھتے ہوئے سفارتی اور اقتصادی بالادستی کا سہرا اپنے سر لیا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی قیادت میں یہ ملک دنیا کے لیے 'وشو گرو‘ بن گیا ہے۔

مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ صرف اب ہی بھارت کو اس کی صحیح عالمی حیثیت ملی ہے ورنہ اب سے پہلے بھارت اور بھارت کے اکثریتی ہندو پہلے مسلمان مغل بادشاہوں اور اس کے بعد برطانوی نوآبادتی نظام کے غلام بن کر رہ گئے تھے۔

مودی حکومت نے نئی دہلی میں نو آبادیاتی دور کی شہری علامتوں کو نئی شکل دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ نصابی کتابیں نئے سرے سے لکھی جا رہی ہیں۔ برطانوی دور کے فوجداری قوانین کو غیر ملکی تسلط کی علامت قرار دے کر انہیں ختم کر کے ان کی جگہ نئے قوانین لائے جا رہے ہیں۔

مودی کی قیادت میں یہ منصوبہ جنوری میں اس وقت اپنے عروج پر نظر آیا جب ایودھیا میں مودی کی صدارت میں ایک عظیم الشان رام مندر کا افتتاح ہوا۔

یہ مندر اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے، جہاں پہلے کبھی تاریخی بابری مسجد تھی، جسے سن 1992میں شدت پسند ہندوؤں نے منہدم کر دیا تھا۔

نریندر مودی نے اس موقع پر کہا تھا، ''اس مندر کے تقدس کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ بھارت غلامی کی ذہنیت سے اوپر اٹھ چکا ہے اور قوم ایک نئی تاریخ کی ابتدا کر رہی ہے۔‘‘

ج ا/ م م (اے ایف پی)