افغان سرزمین پرصحافت ایک مذاق بن کر رہ گئی

طالبان رجیم میں آزادی صحافت پر پے در پے وارجاری ہیں،رپورٹ

جمعرات 18 اپریل 2024 15:22

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اپریل2024ء) اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان میڈیا کو مشکلات کا سامنا ہے اور صحافی برادری کے لیے معلومات کی فراہمی ایک کٹھن مرحلہ بن چکا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغان سرزمین پر صحافت ایک مذاق بن کر رہ گئی اور شعبہ صحافت افغانستان میں ایک چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

افغان حکومت کی جانب سے ظلم و بربریت کے خلاف بولنے والے کئی صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، یو این ایچ سی آر کے تحت کام کرنے والے دو غیر ملکی صحافیوں کو طالبان حکومت نے حراست میں لے لیا۔رپورٹ کے مطابق اگست 2021 سے پہلے افغانستان میں شائع ہونے والے 90 سے زائد اخبارات میں سے صرف 11 فعال ہیں۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد 270 سے زائد میڈیا تنظیموں نے کام معطل کر دیا۔

(جاری ہے)

بی بی سی کو بھی مواد نشر نہ کرنے کے حکم کے بعد اس کی پروگرامنگ بند کر دی گئی، 2023 میں افغان طالبان نے پاکستانی صحافی انس ملک کو اغوا کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔اقوام متحدہ کے مطابق اپریل 2023 کے بعد سے خواتین صحافیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے، سال 2023 میں افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد اور ان کی حراست کے 108 واقعات درج ہوئے۔

2023 میں یونیسکو نے افغانستان میں متعدد صحافیوں کی ہلاکت پر رپورٹ شائع کی۔افغانستان میں 50 فیصد سے زائد میڈیا چینلز بند ہو گئے۔رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز نے افغانستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دے دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد میں پچاس فیصد سے زائد کی کمی ہوئی ہے جبکہ میڈیا ورکرز کی کل تعداد میں نصف سے زیادہ کمی آئی ہے،خواتین صحافیوں کے ایک چوتھائی حصے میں سے صرف 15 فیصد باقی ہے۔عالمی اداروں کو چاہیے کہ افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے استحصال پر نوٹس لیں۔